نہ کوئی جادہ ومنزل نہ روشنی کا سراغ (آخری حصہ)

679

اقتدار میں آنے سے سال ڈیڑھ سال پہلے تک نواز لیگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی علامت تھی۔ نواز شریف، مریم نواز، خواجہ آصف، سعد رفیق اور نہ جانے کون کون ایک دوسرے سے بڑھ کر فوج کے خلاف بیان بازی کرتے تھے کیونکہ وہ اپوزیشن میں تھے اور حکومتی ٹرائیکا یعنی عمران خان کی حکومت، فوج اور عدلیہ کے جبر کا سامنا کررہے تھے۔ گرفتاریوں پر گرفتاریاں دے رہے تھے اور مہینوں اور برسوں قیدو بند کی صعوبتیں جھیل رہے تھے۔ تاہم اس عالم میں بھی شہباز شریف اور ان کے ہم خیالوں نے ایک طرف نواز شریف اور دیگر قائدین کو ایک حد سے آگے جانے نہیں دیا اور دوسرے غصے اور انتقام کا شکار ہونے کے بجائے جیل کے اندر بیٹھ کر فوج کی اعلیٰ قیادت سے رابطے اور صلح کے راستے تراشے۔ اس وقت عمران خان دعویٰ کرتے تھے کہ فوج کے پاس میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے لیکن شہباز شریف نے اس نظریہ کو غلط ثابت کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی عمران خان اور فوج کے تعلقات میں دراڑیں پڑیں، ایک پیج پھٹا اور عمران خان فوج کے لیے بوجھ بنے، پی ڈی ایم نے قانونی اور آئینی طور پر آگے بڑھ کرتحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔
آج سیاست کی بساط پر صورتحال مختلف ہے۔ کھلاڑیوں کی پوزیشن تبدیل ہوگئی ہے۔ سال ڈیڑھ سال پہلے تک عمران خان فوج کے سب سے بڑے حامی اور اس کے دفاع میں پیش پیش رہتے تھے لیکن آج وہ وہاں کھڑے ہیں جہاں پہلے نواز شریف تھے اور فوج کے سب سے بڑے ناقد اور مخالف ہیں باوجود اس کے تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پائی تھی اور جرنیلوں، ججوں اور حکمران طبقے کے دیگر حصوں کی طرف سے اسے اقتدار میں لایا گیا تھا۔ اُس وقت پی ٹی آئی کے قائدین اور اس کے ورکر سوشل میڈیا سے لے کر جلسوں جلوسوں تک ہر جگہ جرنیلوں کے ترجمان بنے ہوئے تھے۔ اقتدار سے ہٹنے اور فوج کو اس کا ذمے دار سمجھنے کی آتش غضب میں عمران خان فوج کے خلاف جس آخری حد اور بے پناہ دشمنی تک چلے گئے ان کے اس بیانیے کا بوجھ ان کی پارٹی کی قیادت کے لیے سنبھالنا ممکن نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت جس طرح جوق در جوق پارٹی سے کنارہ کش ہورہی ہے یقینا اس میں اسٹیبلشمنٹ کے دبائوکا بھی دخل ہے لیکن اس کی بنیادی اور اہم وجہ فوج کے خلاف عمران خان کا تندوتیز بیانیہ ہے۔ فوج کے باب میں عمران خان نے اس توازن کو ملحوظ نہیں رکھا جو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے فوج کے ہاتھوں پھانسی پا جانے کے باوجود بے نظیر نے یا فوج کی قیادت کی طرف سے پے درپے زخم کھانے کے باوجود ن لیگ کی قیادت نے پچھلے برسوں میں برقراررکھا تھا۔ عمران خان اور ان کی ٹیم نے اپنے دور اقتدار میں جس کھلے طریقے سے بے پناہ کرپشن کی اور اقتدار سے ہٹنے کے بعد جس طرح انہیں کرپشن کے مقدمات کا سامنا ہے اس نے انہیں افراتفری، مسلسل ہیجان اور فرسٹریشن میں مبتلا کردیا ہے اور وہ یکے بعد دیگرے غلطیوں کا ارتکاب کرتے چلے جارہے ہیں۔
نو مئی کو فوجی تنصیبات اور ریاستی اداروں پر حملوں کو عمران خان کے مداحوں نے انقلاب کی ابتداء سے تعبیر کیا کیونکہ فوج کے خلاف جس حدتک نفرت اور دشمنی کا اظہار کیا گیا عمران خان کے علاوہ اتنا آج تک کسی نے نہیں کیا۔ لیکن کیا ہم پونے چار سال تک عمران خان کا دور اقتدار نہیں دیکھ چکے؟ جو بیڈگورننس اور کرپشن کے اعتبار سے بدترین دور تھا جس نے پاکستان کو دیوالیہ پن کی حدتک پہنچادیا اور باوجود پیہم کوششوں کے ملک سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے۔ کیا اس انقلاب کے کامیاب ہونے اور عمران خان کے واپس اقتدار میں آجانے سے ملک وقوم کے لیے خیر کی ادنیٰ سی امید بھی ممکن ہے؟۔ کیا صرف چہرے کی تبدیلی سے انقلاب ممکن ہے؟ ایک ایسا شخص جسے شام کو یاد نہ رہتا ہو کہ صبح اس نے کیا کہا تھا۔ ایبسلوٹلی ناٹ سے لے کر امریکا کے منتوں اور ترلوں پر اُتر آنے تک جو ضمیر کی معمولی سی خلش محسوس نہ کرتا ہو، اقتدار کی بھیک کے لیے جو پل پل رنگ بدلتا ہو، لوٹ مار اور کرپشن کے لیے مدینے جیسی ریاست، امر با لمعروف اور نہی عن المنکر جیسی مقدس اسلامی اصطلاحات کا بے دردی سے استعمال کرتا رہا ہو کسی بھی انقلاب کی صورت اس کی واپسی سے سیاسی انتشار کا خاتمہ ہوسکتا ہے؟ یہ ملک اور اس کے عوام خوشحال ہوسکتے ہیں؟
چہروں کی تبدیلی سے انقلاب نہیں آتے جب کہ پورا نظام وہی رہے جوگزشتہ تمام ادوار میں یکساں نافذ رہا ہو اور ہماری موجودہ تباہی کا ذمے دار ہو۔ انقلاب کا مطلب پورے سیاسی، معاشی، عدالتی، تعلیمی، معاشرتی نظام اور خارجہ پالیسی کی تبدیلی ہے۔ کیا صرف چہروں کی تبدیلی سے سرمایہ دارانہ معاشی نظام تبدیل ہوسکتا ہے؟ کیا صرف حکمرانوں کی تبدیلی سے بر طانوی راج کا چھوڑا ہوا عدالتی نظام تبدیل ہوسکتا ہے؟ کیا صرف چہروں کی تبدیلی سے کشمیر یا بیت المقدس کی واپسی کے لیے افواج کو حرکت میں لایا جاسکتا ہے؟ کیا صرف چہروں کی تبدیلی سے توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے مغربی ممالک سے ناتا توڑا جاسکتا ہے؟ کیا صرف چہروں کی تبدیلی سے اس بدترین نظام کا خاتمہ کرکے ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جاسکتا ہے؟ ہم نے فوجی حکومتیں بھی دیکھی ہیں اور سیاسی حکومتیں بھی، وزرائے اعظم کو بھی آتے جاتے دیکھا ہے اور فوجی ڈکٹیٹروں کو بھی، عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تبدیلیاں بھی دیکھی ہیں اور اعلیٰ عہدیداروں اور بیورو کریٹس کی بھی، تین تین مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکو متیں بھی دیکھی ہیں اور تین تین مرتبہ نواز شریف کو بھی برسراقتدار دیکھا ہے اور پھر ان سب کے دشمن عمران خان کو بھی، عوام کی فلاح و بہبود یا ملک کی خوشحالی سے کسی کو کوئی سروکار تھا؟ کسی کے پاس مسائل سے نپٹنے کا کوئی سنجیدہ حل موجود تھا؟ کسی کے دور میں مہنگائی، بے روزگاری اور عوام کی بدحالی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے زیادہ حقیقی توجہ حاصل کرسکی؟
ملک میں تبدیلی اسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب موجودہ نظام کومکمل طور پر لپیٹ کر، اس کا خاتمہ کرکے نیا نظام لایا جائے۔ کسی سیاسی فکر اور نظام کے بجائے محض ایک فرد کی تبدیلی کے گرد جدوجہد کو گھمانا اور تبدیلی کی تحریک کھڑی کرنا،کسی ایک پارٹی کے سربراہ کو ہٹا کر دوسری پارٹی کے سربراہ کو اقتدار میں لانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ معاشرہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجائے، زہریلے مباحث جنم لیں، فوج اور عوام کے درمیان دوریاں اور نفرتیں بڑھتی جائیں اور معاشرہ کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جائے۔ لاہور کے کور کمانڈر ہائوس، جی ایچ کیو اور پشاور اور دیگر شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے وہی لوگ تھے جو کچھ عرصے پہلے جرنیلوں کو اپنا باپ کہتے تھے اور ان کی مدد سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔ اسی طرح آج فوجی جرنیلوں کی مداحی کرنے والے ان کے گن گانے والے وہی لوگ ہیں جو کل تک اپوزیشن میں فوج کو برا بھلا کہتے رہے ہیں۔ موجودہ نظام میں جس میں صرف مہرے اِدھر سے اُدھر ہوتے ہیں، محض اپنا مقام اور پوزیشن تبدیل کرتے ہوں۔ آپ الیکشن کی صورت چہرے تبدیل کروالیں یا کسی اور صورت دلدل میں دھنسنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
پاکستان کے عوام اور مسلح افواج دونوں اسلام سے محبت کے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اسلام کے لیے زندہ رہنا اور اسلام کے لیے مرنا چاہتے ہیں۔ وہ باہم تقسیم ہونے پر نہیں بلکہ اسلام کے نفاذ کے لیے مشترکہ جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان کو جس سیاست کی ضرورت ہے، اس کا محور ومرکز عوام کے امور کی دیکھ بھال ہو ایسا صرف اسلامی شریعت کے نفاذ سے ممکن ہے۔ جب تک ہمیں ایسے حکمران میسر نہیں آئیں گے جو قرآن اور سنت نبوی سے اخذ کردہ احکام کو ریاست وسیاست میں نافذ نہیں کریںگے ہماری فلاح ممکن نہیں۔