پت جھڑ کے موسم کے بعد

635

پی ٹی آئی پر ان دنوں پت جھڑ کا موسم سایہ فگن ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ موسم وقفے وقفے اپنے دور کی مقبول مگر معتوب جماعتوں پر سایہ فگن رہا ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں پیپلزپارٹی کی کوکھ سے حنیف رامے کی مساوات پارٹی، مولانا کوثر نیازی، غلام مصطفیٰ جتوئی اور غلام مصطفی کھر کی نیشنل پیپلز پارٹی سمیت درجنوں رنگی برنگی پارٹیوں نے جنم لیا تھا۔ اس کے بعد آخری کوشش پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کی صورت میں ہوئی تھی۔ جنرل مشرف کے دور میں یہ موسم مسلم لیگ ن پر سایہ فگن ہوا تھا اور بھاری مینڈیٹ کی حامل اس جماعت کی کوکھ سے مسلم لیگ قائداعظم کا ظہور ہوا تھا اور پچھتر فی صد ن لیگ ق میں ڈھل گئی تھی۔ اب یہ موسم پی ٹی آئی پر سایہ فگن ہے اور پارٹی کی شاخوں سے کارکن خزاں گزیدہ پتوں کی مانندگر رہے ہیں۔ پت جھڑ کی رفتار یہی رہی تو عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود پی ٹی آئی نئی زمینی حقیقتوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ جس طرح پی ٹی آئی کے لوگ دن رات پریس کانفرنس کرکے پارٹی اور سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں اس سے صاف لگ رہا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت سال بھر کی کوششوں کے بعد پی ٹی آئی اور عمران خان کو مینج کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس کامیاب مینجمنٹ کا عوام کی زندگی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں اس کے باوجود حکومت نے سال بھر سے اپنی تمام صلاحیتیں اسی کام کو انجام دینے کے وقف کیے رکھیں جس کے باعث ملک مسلسل بحرانی کیفیت کا شکار چلا آرہا ہے۔ طویل اور سرتوڑ کوشش کے بعد حکومت کو اس کام میں کامیابی مل ہی گئی تو اب حکومت کو وقت کے سب سے بڑے چیلنج سے نمٹنے کی تیار ی کرنا چاہیے۔ وہ ہے ملک کی ڈولتی اور ڈوبتی معیشت جس کا عام آدمی سے براہ راست تعلق ہے۔
معیشت کے ڈوبنے اور لڑکھڑانے کا تعلق ملک کی سلامتی سے ہوتا ہے۔ سوویت یونین کے قصہ ٔ پارینہ بننے کا منظر ابھی بھی بہت سے لوگوں کے ذہنوں اور نظروں میں موجود ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں تین عشرے قبل کا معاملہ ہے۔ دنیا کے کئی براعظموں میں پھیلے ہوئے اس ملک کا زوال معیشت کے ڈوب جانے کے باعث ہوا تھا۔ سوویت یونین کے انجام سے سبق سیکھ کر جن ملکوں نے اپنی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کیا وہ آج دنیا کی مضبوط معیشتوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ ہمارا ازلی اور ابدی دشمن بھارت انہی ملکوں میں شامل ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو آج جی ٹونٹی ملکوں کی کانفرنس میں کشمیر کا لیفٹیننٹ گورنر پاکستان کے اعتراض کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں نہ کہتا کہ ہمارے پڑوسی ملک کو اپنے عوام کو ضرورت کی اشیا مہیا کرنی چاہیے۔ بھارت کی طرف سے اب سب سے بڑا طعنہ اور طنز کشکول قرض اور امداد کے حوالے ہی سے آتا ہے۔ کس قدر المنا ک معاملہ ہے کہ ہم نے ایٹم بم بنا کر بھارت پر جو لیوریج حاصل کیا تھا معیشت گنواکر وہ لیوریج خود اپنے ہی ہاتھوں ختم کر دیا ہے۔ جن ملکوں نے سوویت یونین کے انجام سے سبق نہیں سیکھا اور معیشت کو ایڈہاک ازم پر قرض کی قسطوں کے ساتھ جوڑے رکھا وہ آج شدید مشکلات کا شکار ہیں اور پاکستان انہی میں سے ایک ہے۔
نوے کی پوری دہائی جب بھارت اور چین اپنی معیشت کو مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرتے رہے۔ عرب ملکوں نے بھی حالات کو بھانپ کر شیوخ کے اسٹائل اور اللوں تللوں کو بدل کر منظم ملکوں اور ریاستوں کے طور طریقے اپنالیے۔ اس بھیانک منظر کو دیکھ کر اگر کوئی نہ بدلا تو پاکستان تھا جو آج معیشت کی بدحالی کے باعث گھٹنوں پر آچکا ہے۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر اور فطری طور پر روپیہ پست ترین مقام پر آچکا ہے۔ مہنگائی لمحوں اور گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی جا رہی ہے اور مارکیٹ کے ریٹس پنڈولم کی طرح جھول رہے ہیں۔ جھولنا بھی شاید اس کے لیے مناسب اصطلاح نہ ہو بس پارے کی طرح اوپر اور اوپر جا رہے ہیں۔ ایک سال سے پی ڈی ایم کے نام سے ملک میں جو ہائبرڈ نظام قائم ہے اس نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے ہر چیز کی قیمت میں کئی سو گنا اضافہ کیا ہے۔ آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی شے کی قیمتیں عام آدمی کی دسترس سے نکل چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری ہونے کے باوجود قرض کی قسط نہیں مل رہی اور اگر قسط مل بھی جاتی ہے تو جس طرح سبسڈیز کے خاتمے کے لیے آئی ایم ایف مُصر ہے تو اس کو دیکھتے ہوئے یہ قرض تریاق کے بجائے زہر ہی ہوگا۔ سبسڈیز پہلے ہی برائے نام ہیں اور مزید کمی مہنگائی کا ایٹم بم ثابت ہوگی اور المیہ یہ ہے کہ یہ ایٹم بم بھی غریب کی بستیوں پر ہی گرے گا امیروں کے محلات اور دولت کا بڑا حصہ چونکہ ملک سے باہر ہے اس لیے وہ اس تباہ کاری کا شکار نہیں ہوں گے۔ پاکستان اس وقت بحرانوں کی ایک ٹرائیکا کا شکار ہے جن میں سیاسی معاشی اور سیکورٹی بحران شامل ہیں۔
عمران خان کی کامیاب مینجمنٹ کے بعد اصولی طور پر اب سیاسی بحران ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ سال بھر سے جو رویہ حکومت نے اپنا رکھا تھا اس میں مسئلہ اول عمران خان ہی نظر آرہا تھا۔ ان کے سیاسی بال وپر کترنے کے بعد اب معاشی اور سیکورٹی بحرانوں پر بھی اسی چابکدستی اور مہارت سے قابو پانا ضروری ہے۔ حکومت کو اگر اس معاملے میں خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو وہ پی ٹی آئی کی مینجمنٹ سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنا اور متبادل کے طور پر سامنے آنا تو درکنار زمان پارک میں بیٹھے یا جیل میں مقید عمران خان کی مقبولیت کو مزید بڑھانے کا باعث بنتی رہے گی۔ پی ٹی آئی کے پت جھڑ کے موسم کے بعد اب حقیقی اور اصلی چیلنج حکومت کے آگے آن کھڑا ہوا ہے۔ پنچنگ بیگ کے بیچ میں سے نکل جانے کے بعد اب کوئی مکا دیوار کو جالگا تو اپنا ہی نقصان ہو سکتا ہے۔ اسحٰق ڈار اب اپنا جادو کا وہ کمال دکھا ہی دیں جس کے خواب ان کے مداح ساڑھے تین سال تک قوم کو دکھاتے رہے۔ میڈیا کو بھی فرصت ہو تو اب منڈیوں اور بازاروں کا رخ کرکے قوم کو اشیائے خور ونوش کی قیمتیں بتائے تاکہ اندازہ ہو کہ عام آدمی کس مشکل میں ہے؟ اور پاکستان کی بگڑی ہوئی معیشت کا کس انداز کا عکس مارکیٹوں پر اور منطقی طور عام آدمی کی کٹیا پر پڑتا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں تو لمحہ بھر کو یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ ملک کا مسئلہ معیشت نام کی کوئی شے بھی ہے۔ اب یہ معرکہ ٔ عمران سر
ہوگیا تو لامحالہ معرکہ ٔ معیشت کو بھی سر ہونا چاہیے۔ جو حقیقی مسائل اب سر اُٹھائیں گے اور ان میں سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے۔ محض یہ کہنے سے کہ معاملات نہیں چلتے کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا۔ عام آدمی کی معاشی حالت کو زندہ در گور کرنے کے بعد ملک دیوالیہ قرارپائے یا نہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب جو بحران ملک کی جڑوں میں گھر کر چکا ہے اس سے نکلنے کا کوئی دعویٰ کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ جھوٹے خواب دکھانے کی بھی کوشش نہیں کی جا رہی۔ معاشرے میںامید یں دم توڑ جائیں تو باقی کیا بچتا ہے؟۔