سیاسی مزاج

636

حسب ِ معمول بابا جی کی پیشی لیفٹ اوور کی بھینٹ چڑھا دی گئی مگر ان کا بلڈ پریشر نارمل ہی رہا، کیونکہ ریڈر نے ان کی گزارش پر اگلی پیشی دے دی تھی، موڈ اتنا خوشگوار تھا کہ ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دے ڈالی اور اپنے ساتھ گھر لے گئے کھانے سے قبل بابا جی نے حسب ِ عادت باتوں کا پنڈورا کھول دیا ان کی گفتگو نہ صرف دلچسپ تھی بلکہ قابل توجہ بھی تھی ان کے کہنے کے مطابق فوج کو بدنام کرنا سیاسی مزاج بن گیا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہمارا کلچر بنتا جارہا ہے۔ ورنہ۔۔۔ ملکی معیشت پر سب سے بڑا بوجھ عدلیہ ہے، ان کا یہ تجزیہ بھی حسب ِ حال ہے کہ جج جسٹس صاحبان اور دیگر عدالتی اہلکاروں کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہیں کہ آدھا قومی بجٹ ان کی نذر ہو جاتا ہے، بابا جی کی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی ایک بڑی اور اہم وجہ الیکشن کرانے کی ضد ہے یہ کیسی حیرت انگیز بات ہے کہ چیف جسٹس پاکستان فرماتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے والا ہے کہ اس لیے یہ کہنا کہ پیسے نہیں توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ قرض کی قسط سے الیکشن کرائے جاسکتے ہیں، آئی ایم ایف بھی اسی لیے معاہدے سے گریزاں ہے کہ حکومت پاکستان قرض کی رقم سے الیکشن کراسکتی ہے سو اس معاملے میں تاخیر پر تاخیر کی جارہی ہے۔
اس پس منظر میں ہمیں امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق یاد آرہے ہیں انہوں نے چیف جسٹس پاکستان سے کہا تھا کہ الیکشن کرانے کے لیے 90دن آئین اور قانون کا تقاضا ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں مگر اب تو 90دن کے بجائے 105دن گزر چکے ہیں ، اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو 210 دن بھی گزر سکتے ہیں، انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ ملک میں ایک ہی دن الیکشن کرادیے جائیں تو بہتر ہو گا، امیر جماعت اسلامی نے یہ بھی کہا تھا کہ انتخابات صاف و شفاف ہوئے تو کسی پارٹی کو اعتراض نہیں ہوگا اور ملکی معیشت پر بھی ناخوشگوار اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
الیکشن کرانے اور نہ کرانے پر اتنے دلائل دیے گئے ہیں کہ قوم کی سوچ ان کے بوجھ تلے دبی سسک رہی ہے، مگر تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا، کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت دکھائی دینے لگتا ہے کہ جس طرح تحریک پاکستان چلانے سے قبل یہ سوچا ہی نہیں گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد طرز حکمرانی کیا ہوگا اسی طرح یہ بھی نہیں سوچا گیا تھا کہ عدل و انصاف کا معیار کیا ہوگا۔
9مئی کے سانحہ کے بعد تحریک انصاف خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھرنے لگی ہے لیکن پروپیگنڈا یہ کیا جارہا ہے کہ تحریکی رہنمائوں کی یہ اڑان عمران خان سے اختلافات کا نتیجہ نہیں حکومت کا دبائو ہے عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ شیریں مزاری جیسی مضبوط اور پاور فل رہنما کا پارٹی اور سیاست سے دستبردار ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومتی دبائو ناقابل برداشت ہے، حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ شیریں مزاری کی پرواز پر عمران خان نے خوشی کا اظہار کیا ہے، مگر ان کی خوشی کا اظہار صرف سیاسی بیان ہے، شیریں مزاری کا اپنا دبائو اتنا ہے کہ کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا، البتہ فیاض چوہان کے بارے میں یہ بات درست ہو سکتی ہے، جب تک فیاض چوہان تحریک انصاف کا حصہ رہے عمران خان کو صادق اور امین سمجھتے رہے اور برملا اس عزم کا اظہار کرتے رہے کہ عمران خان کی طرف ٹیڑھی آنکھ دیکھنے والے کی آنکھ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیں گے اور خان صاحب کو دیکھ کر اپنی مونچھوں کو تائو دینے والوں کو دیکھ کر اتنا تائو آتا ہے کہ ان کی مونچھوں کو پھانسی کا پھندا بنا دیں، مگر آج وہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خان کو بہت سمجھایا تھا کہ سیاست صبر و تحمل کی متقاضی ہوتی ہے، یہاں فاسٹ بائولنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، جن کے منشور میں لچک نہیں ہوتی سوکھی لکڑی کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں، اگر خان صاحب ان کے مشورے پر عمل کرتے تو ٹوٹ پھوٹ کے عمل کی نوبت ہی نہ آتی، تحریک انصاف کے رہنما جس تیزی سے پارٹی سے نکل رہے ہیں اتنی تیزی سے مٹھی کی ریت بھی نہیں نکلتی یہ مکافاتِ عمل ہے مگر تحریک انصاف کے حامی اس عمل کو حکومت کی کارستانی قرار دے رہے ہیں، تحریک انصاف کے سابق رہنما فیصل ووڈا نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف کو خدا حافظ کہنے والوں کا صدر مملکت سے رابطہ ہے، وہ صدر مملکت کی ہدایات پر عمل کررہے ہیں، اچھا ہوتا فیصل واوڈا یہ بھی بتا دیتے کہ یہ رہنما تحریک انصاف میں کس کی ہدایت پر آئے تھے، فیصل واوڈا عمران خان کی ناک کا بال ہوا کرتے تھے ۔ خان صاحب کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہنا ان کی سیاست کی بنیاد تھی کہتے ہیں ناک کا بال انسانی جسم کی حفاظت کے لیے بہت اہم ہوتا ہے اگر یہ بال ٹوٹ جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے، فیصل ووڈا کے ٹوٹ جانے سے خان صاحب مختلف عوارض کا شکار ہوگئے ہیں، گویا بال کسی بھی ناک کا ہوخطرہ بن سکتا ہے، فیصل ووڈا کے ایک بیان کے مطابق عمران خان کی کرپشن کا سب سے زیادہ فائدہ ایک جنرل نے اٹھایا ہے مگر کوئی بھی ان کا نام نہیں لیتا، صدر مملکت ڈینٹل سرجن ہیں دانت دیکھنا ان کی پیشہ ورانہ ذمے داری ہے اسی ذمے داری کے پیش نظر انہیں صدر مملکت بنایا گیا تھا مگر انسانی فطرت ہمیشہ تبدیلی کی متقاضی ہوتی ہے، سو عارف علوی صاحب کی فطرت نے بھی اپنا رنگ دکھایا، دانت دیکھتے دیکھتے وہ دانت دکھانے لگے۔
دونوں تباہ ہو گئے ختم کرو یہ معرکے
اہل ستم نہیں نہیں، دل زدگان نہیں نہیں