زرِمبادلہ کے ذخائر میں مستقل کمی

893

اس وقت پاکستانی معیشت کو انتہائی سنگین چیلنج اور خطرات درپیش ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، بے یقینی اور خوف کے ماحول میں ملک بدترین حالات سے گزر رہا ہے اور اس کی معیشت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے ۔ مخصوص طبقے کو نوازنے کے لیے لوگوں پر ٹیکسوں اور پیٹرولیم مصنوعات، بجلی و گیس کے نرخوں کا بوجھ مستقل ڈالا جا رہا ہے ، بلوں کے ستائے صارفین پر مزید بوجھ ڈالنے کے لیے نیپرا نے بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ صادر کردیا ہے ۔ وطنِ عزیز کے مختلف شعبوں میں متعدد خرابیاں و تباہ کاریاں ایک ساتھ سامنے آرہی ہیں۔کچھ ٹھیک نہیں ہورہا ہے اور نہ ٹھیک کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہورہی ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرِمبادلہ کے مجموعی ذخائر 9 ارب 73 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں، جن میں کْل 20 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی کمی ہوئی۔ یہ حالیہ کمی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو لیٹر آف کریڈٹ کھولنے کے لیے سخت شرائط لگاکر درآمدات پر سخت کنٹرول رکھا ہوا ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل چوتھے ہفتے گرنے کی حالیہ خبریں تشویش کا باعث ہیں۔ تنزلی کے بعد 4 ارب 20 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں، جس سے بمشکل ایک مہینے کی کنٹرولڈ درآمدات کی جاسکتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی منڈیاں اسمگل شدہ ایرانی اور چینی مصنوعات سے بھری پڑی ہیں، جبکہ بنگلہ دیش سے ٹیکسٹائل مصنوعات بھی آرہی ہیں۔ اشیا کی اسمگلنگ اور غیر قانونی منڈیوں سے ڈالر خریدنے کی وجہ سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کا فرق زیادہ ہوگیا ہے ۔ یہ فرق 22 روپے تک پہنچ چکا ہے ، جس کی وجہ سے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے اس بڑے فرق سے فائدہ اٹھانے کے لیے قانونی ذرائع کا استعمال کرنا روک دیا ہے ۔ اپریل میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے 29 فیصد کم ترسیلاتِ زر بھیجیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈالرز کی آمد قانونی سے غیر قانونی ذرائع کی طرف منتقل ہوئی ہے ۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ فرق برقرار رہتا ہے تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان مجبور ہوجائے گا کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی کرے ۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی وطنِ عزیز کی خراب معاشی صحت کا ایک اہم اشارہ ہیں، اور اس کمی سے معیشت اور لوگوں پر سخت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
زرمبادلہ کے ذخائر معیشت کے لیے اہم ہوتے ہے ، جو کرنسی کو مستحکم کرنے ، درآمدی بلوں کی ادائیگی اور بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ جب ذخائر گر جاتے ہیں تو یہ کرنسی کی قدر میں کمی، افراطِ زر میں اضافے اور قرض لینے کی لاگت میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ پیچیدہ مسائل ہیں جن کو حل کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے ۔ جب کہ پی ڈی ایم حکومت پہلے دن سے صرف یہ بات تسلسل کے ساتھ کہہ رہی ہے کہ اسے ایسی تباہ حال معیشت ورثے میں ملی تھی جو دیوالیہ ہونے کے قریب تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ ہوگیا ہے ، آپ نے معیشت کو صحیح سمت دینے کے لیے باتوں کے سوا کیا کیا ہے ؟ اسحاق ڈار اور حکومت کا بار بار کہنا تھا کہ عمران خان نے ساڑھے تین سال تک منصوبہ بندی سے پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے کی کوشش کی، لیکن موجودہ حکومت نے کون سا ایسا کام کیا ہے جس پر کہا جائے کہ معیشت بچ گئی ہے ! اس وقت موجودہ حکومت کی کارکردگی کا نتیجہ ہے کہ پیٹرول تین سو روپے کے قریب اور ڈالر تین سو روپے سے زیادہ پر پہنچ چکا ہے ۔ اس لیے حکومت کو عملی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی بنیادی وجوہات دور کرنے اور معیشت پر اعتماد بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اس کے لیے حکومت کو جہاں بدعنوانی اور نااہلی کے مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے وہاں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلاتِ زر کو بڑھانے کے لیے بھی کوششیں کرنا ہوں گی۔ حکومت کے لیے گورننس کو بہتر بنانے اور معیشت کے انتظام میں شفافیت کے لیے اقدامات کرنا بھی ضروری ہیں۔ اس سے معیشت پر اعتماد بحال کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروںی کو راغب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔