ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

587

 

یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کراچی کے نوجوان طلبہ نے موٹر سائیکل سواروں کے لیے زندگی بچانے والا ہیلمٹ تیار کیا ہے ۔ باصلاحیت کمپیوٹر انجینئرز نے موٹرسائیکل سواروں کو حادثات سے بچانے اور کسی حادثے کی صورت میں جلد از جلد فوری طبی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اسمارٹ ہیلمٹ اینڈ ایکسیڈنٹ الرٹ سسٹم تیار کرلیا ہے ۔ اس ہیلمٹ میں متعدد جدید خصوصیات شامل کی گئی ہیں۔ ہیلمٹ میں نصب وائبریشن سینسرز، جی ایس ایم اور جی پی ایس سسٹم کے ساتھ سولر چارجنگ سسٹم سے لیس ہیں۔ یہ ہیلمٹ کسی حادثے کی صورت میں ایمرجنسی سہولتوں ایمبولینس اور نزدیکی اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈز کے ساتھ مخصوص نمبروں پر دوستوں یا اہلِ خانہ کو الرٹ جاری کرکے حادثے یا ایمرجنسی سے آگاہ کرتا ہے اور ہیلمٹ پہننے والے موٹر سائیکل سوار کی لوکیشن بھی بتاتا ہے ۔ یہ کامیابی ہمارے نوجوانوں کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پوری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے ۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی نوجوانوں کے بارے میں کہا تھا ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی‘‘۔ اس وقت صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں حادثات کا شکار ہونے والے 87 فیصد موٹرسائیکل سوار ہیلمٹ نہیں پہنتے ، جن میں 43 فیصد 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوان ہیں۔ ان حادثات میں 15 فیصد کو سنگین چوٹیں آتی ہیں جس کی وجہ سے وہ معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 32 فیصد سواروں کو سر پر چوٹ لگتی ہے ، 64 فیصد کو ٹانگوں اور 37 فیصد کو ہاتھوں پر چوٹ لگتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان طلبہ نے ایسا ہیلمٹ تیار کیا ہے جو ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اور یہ تعلیم اور تحقیق میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو واضح کرتا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف ہیلمٹ سڑکوں پر حادثات سے حفاظت کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا۔ اس کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا، ٹریفک قوانین کو نافذ کرنا، اور محفوظ ڈرائیونگ کے طریقوں کو فروغ دینا شامل ہے ۔ بہرحال اس ہیلمٹ کی ایجاد مثبت قدم ہے ۔ ان نوجوانوں کے مطابق سرمایہ کار اس ہیلمٹ کی کمرشل بنیادوں پر تیاری کے لیے تیار ہیں۔ یقیناً یہ کاروباری لحاظ سے ایک موزوں اور منافع بخش آئیڈیا ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ یہ ہیلمٹ عوام کے لیے مناسب قیمت پر دستیاب ہوں، تاکہ انہیں وسیع پیمانے پر اپنایا جاسکے ۔ حکومت اور نجی شعبے کو چاہیے کہ وہ ان ہیلمٹ کی تیاری اور تقسیم میں تعاون کریں، اور ان کے استعمال کے لیے مراعات فراہم کریں۔ یہ اور اس طرح کی دوسری قابلِ ذکر کامیابیاں ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت کی روشن مثال ہیں۔ صحیح تعاون اور حوصلہ افزائی میسر ہو تو ہمارے نوجوان بڑے بڑے کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے مواقع اور حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے ایسے ذہین لوگ بیرون ملک منتقل ہوجاتے ہیں، اور یہی ہماری تاریخ ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔