نہ کوئی جادہ و منزل نہ روشنی کا سراغ (پہلا حصہ)

576

جب جہاز ڈوبنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے چوہے جہاز سے چھلانگ لگاتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے اور یقینا سچ ہے تو کیا تحریک انصاف ایسے چوہوں کی جماعت تھی جن سے دلیری کی توقع فضول تھی۔ دو ہفتے ہی میں پارٹی بکھر کر رہ گئی۔ عمران خان ایسے چڑھتے سورج تھے جن کی پوجا کی گئی لیکن مزاجاً وہ نظام کو سمجھ سکے، نہ تاریخ کا فہم رکھتے ہیں اور نہ کسی نظریہ اور اصول کے قائل ہیں۔ وہ ایسے خود پسند، خود غرض، شریفانہ طریق عمل سے ناآشنا، منتقم مزاج شخص ثابت ہوئے جنہوں نے میدان سیاست وحکومت میں کسی کو شکست نہیں دی سوائے اپنے آپ کو۔ ان کی پارٹی اس طرح تحلیل ہورہی ہے جیسے گرم زمین پر پانی کا قطرہ گر کر چھن سے غائب ہوجاتا ہے۔ انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ تاریخ کا بے رحم صفحہ انہیں کہیں پیچھے چھوڑ کر پلٹ چکا ہے۔ پہلے وہ پوری تن دہی کے ساتھ جنرل باجوہ کو اپنی تمام نالائقیوں اور نارسائیوںکا ذمے دار قرار دیتے رہے آج کل ان کی گفتار کے آتشیں اسلحہ کا رخ جنرل عاصم منیر کی طرف ہے۔ بیرونی میڈیا کو جو وہ فرینڈلی انٹرویو دے رہے ہیں مسلح افواج کے بارے میں جو کچھ اظہار خیال فرمارہے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان سر پیٹے یا قہقہے لگائے۔ وہ فوج کو اس طرح نشانہ بنارہے ہیں جیسے فوج ہی پاکستان کی موجودہ صورتحال کی واحد ذمے دار ہے؟ فوجی جرنیل ہی اس ملک کا واحد مسئلہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج، عدلیہ، سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی سب ہی آگ کے شعلوں میں ایندھن کے گٹھے ڈالنے کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں فوجی حکومتیں بھی جلوہ آرا رہی ہیں جب فوجی حکمران ارفع اور اعلیٰ بصیرت سے وطن عزیز کی گوشت اور ہڈیاں مجتمع رکھنے میں براہ راست مصروف رہے۔ پاکستان میں مختلف سیاسی حکومتیں بھی اقتدار کی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر فتح پانے کے چکر میں آغاز وانجام سے دوچار ہوتی رہیں۔ پاکستان میں ٹیکنو کریٹس بھی اپنے ہنر کی کرامات دکھاتے رہے ہیں اور فوج اور سیاسی حکومتوں کی مشترکہ ہائبرڈ حکومت بھی رہی ہے جیسا کہ عمران خان کی حکومت۔ ان تمام ادوار میں ملک کی قسمت کے ستارے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی صورت ہی گردش میں رہے وہ فوجی قانون کی صورت میں تھے یا آئین پاکستان کی۔ ان تمام ادوار میں مقتدر اعلیٰ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نہیں بلکہ فوجی ڈکٹیٹر تھے یا پارلیمنٹ۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا قانون نہیں بلکہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نافذ رہا۔ ان تمام ادوار میں عدالتوں میں فیصلے پاکستان پینل کوڈ 1860 اورکریمنل پروسیجر کوڈ 1898 کے تحت کیے گئے نا کہ قرآن وسنت کے مطابق۔ ان تمام ادوار میں سود کا نظام جاری وساری رہا جو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ ہے۔ ان تمام ادوار میں سرمایہ دارانہ طرز معیشت کو نافذ کیا گیا جس سے امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتے چلے گئے۔ ان تمام ادوار میں ہماری معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول اور قابو میں رہی۔ وہی ہماری معیشت چلاتا رہا۔ ہر بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی ہی سے نہیں بلکہ میڈ ان آئی ایم ایف رہا اس آئی ایم ایف کا ساختہ جو امریکی استعماری ادارہ ہے۔ جس کے بعد عوام کے سامنے بجٹ کی رونمائی کی جاتی رہی ہے۔
ان تمام ادوار میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ ان تمام ادوار میں بجلی مہنگی ہوئی ہے، گیس مہنگی ہوئی ہے۔ عوام پر ظالمانہ ٹیکس نافذ کیے گئے۔ طاقتور کے لیے قانون مکڑی کا جالا اور کمزور کے لیے طاقتور رہا۔ ان تمام ادوار میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی شہری غائب کیے گئے۔ ان تمام ادوار میں تعلیم، صحت، بجلی گیس، پانی، سیوریج اور سڑکوں کی حالت تباہ رہی اور لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم رہے یا ان کا حصول بے حد مشکل رہا۔ ان تمام ادوار میں کسی بھی حکومت نے کشمیری مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا اور انہیں ہندئوں کے سامنے بے یارومددگار چھوڑے رکھا۔ بھارتی حکومتوں نے جو چاہا کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ کیا حتی کہ اسے ہندوستان میں ضم کرلیا ہماری فوجیں حرکت میں نہیں آئیں۔ ان تمام ادوار میں ہماری خارجہ پالیسی امریکی حکومتوں کے ایوانوں میں تشکیل پاتی رہی اور پاکستان امریکا کی ذیلی ریاست رہا۔ زبردست زرعی اور صنعتی صلاحیتوں کے باوجود ان ادوار میں ہماری درآمدات بہت زیادہ اور برآمدات انتہائی کم رہیں۔ جس کا نتیجہ مفلوج معیشت کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
ان تمام ادوار میں کسی سول یا فوجی حکمران کو عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکا سے مطالبہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی جب کہ توہین رسالت کے مجرموں کو باحفاظت امریکا اور یورپ بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ ان تمام ادوار میں سیدالمرسلین کی شان میں گستاخی کرنے والے کسی مغربی ملک کے خلاف شدید ایکشن لینا تو ایک طرف پاکستان کے عوام کو باور کرایا جاتا رہا کہ ہم نے ایسے کسی ملک مثلاً فرانس کے خلاف ایکشن لیا تو یورپی یونین ہم پر رزق کے دروازے بند کردے گی۔
ان تمام ادوار میں فوجی جرنیلوں، جمہوری سیاست دانوں اور برطانوی قوانین نافذ کرنے والے ججوں نے اس کرپٹ نظام سے خوب دولت سمیٹی۔ اندرون وبیرون ملک ان کی دولت کے پہاڑ بلند سے بلند تر ہوتے گئے۔ اس دوران حکمران اشرافیہ کے درمیان جو لڑائیاں اور محاذ آرائیاں ہوئیں ان کا مرکزو محور اس ملک اور عوام کے مفادات نہیں بلکہ ان کے اپنے مفادات تھے جس کے لیے وہ اس نظام کو زیادہ سے زیادہ اپنے زیر اثر اور زیر استعمال رکھنا چاہتے ہیں۔ آج جو بدترین صورتحال ہے۔ مختلف سیاسی گروہوں اور فوج کے درمیان محاذ آرائی اور چپقلش پائی جاتی ہے اس کی وجہ کوئی نظری اور فکری اختلاف ہے اور نہ ملک وقوم کا مفاد۔ اس کی وجہ حکمران طبقے کی آپس کی لڑائی ہے۔ گزشتہ برس عمران خان کی حکومت اس وقت گری جب وہ اور فوج ایک صفحے پر نہیں رہے۔ جس کا فائدہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے اٹھایا اور پس پردہ فوج کے تعاون سے عمران خان حکومت کے خلاف جمہوری انداز میں تحریک عدم اعتماد لانے میں کامیاب رہی۔ عمران خان نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر آئینی ہتھکنڈوں کے ذریعے جس کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے اور حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عمران خان عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر اپنی حمایت کے بل بوتے پر فوج کے خلاف جارحانہ انداز سے سرگرم رہے ہیں۔ لاہور میں کورکمانڈر ہائوس، جی ایچ کیو، شہداء کی علامات اور ائر بیس پر حملہ کوئی اتفاقی امر نہیں تھا۔
یہ طے شدہ منصوبے کے تحت تھا جس کی وجہ فوج کے اندر سے آشیرباد بھی تھی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ فوجی جرنیلوں کی حمایت عمران خان سے یکسر ختم ہوکر پی ڈی ایم کے پلڑے میں چلی گئی ہے۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکمران اتحاد ایک صف میں اور عمران خان اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا ایک حصہ دوسری طرف صف آرا ہے۔ یہ صف آرائی گزشتہ ایک برس سے جاری تھی لیکن نو مئی کے بعد اس لڑائی کی سطح بہت بلند اور مرنے یا مارنے تک چلی گئی ہے۔ عمران خان کے ریاست اور فوج کے خلاف محاذ آرا ہونے کی حماقت نے ایک طرف ان کی پارٹی کو بدترین کریک ڈائون سے دوچار کرکھا ہے۔ ٹوٹ پھوٹ سے دوچار تحریک انصاف کی تقریباً تمام قیادت عمران خان سے علٰیحدگی اختیار کر چکی ہے۔ عمران خان کے گرفتار ہونے، نااہل ہونے اور پارٹی کے کالعدم ہونے کے امکانات پر ملک میںمباحثے کیے جارہے ہیں۔ (جاری ہے)