اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر مالی سال 23ء کی ششماہی رپورٹ جاری کردی۔ رپورٹ میں کیا گیا تجزیہ جولائی تا دسمبر مالی سال 23ء کے ڈیٹا کے نتائج پر مبنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بیرونی جاری کھاتے اور بنیادی مالیاتی توازن میں پالیسی پر مبنی بہتری کے باوجود مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں پاکستان کے معاشی حالات میں بگاڑ دیکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران اہم خدشات میں مضر عالمی معاشی حالات، آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل کے بارے میں بے یقینی، ناکافی بیرونی فنانسنگ اور زرمبادلہ کے ذخائر کی پست سطح شامل تھے جن میں شدید سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شدت آ گئی۔
پاکستان کے بننے سے اب تک کی حکومتوں و ریاستی اداروں کے سربراہان کی فہرست مرتب کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ چند خاندان ہی اس ملک پر مسلسل حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جن کے پیش نظر صرف اور صرف ذاتی مفادات ہیں۔ وہ ہر قدم ایسا اٹھاتے ہیں، جس سے ان کے کارخانے اور کاروبار تو ترقی پاتے ہیں۔ لیکن عوام ان کے اداروں میں کام کرنے والوں کے لیے معاشی بد حالی پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک طرف یہاں کی ٹاپ کی ایک سو کمپنیاں تو سال میں تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا منافع کما رہی ہوں، لیکن دوسری طرف معلوم ہو کہ اسی ملک کی معاشی حالت خراب ہے، جسے سہارا دینے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑے گا اور پھر ان سے ایسی شرائط پر قرضہ لیا جاتا ہے، جس کا بوجھ عوام پر آتا ہے۔ جب کہ اشرافیہ کی اپنی عیاشیاں جاری رہتی ہیں۔ اس میں اگر کوئی ابہام ہو تو آئی ایم ایف سے قرضے کی نئی قسط حاصل کرنے کے لیے شرائط و مذاکرت کی داستان پڑھ لیں۔ تمام ایسی شرائط ہیں جن کا اثر براہ راست ایک عام انسان کی زندگی پر ہے۔ مثلاً حالیہ دنوں میں، آئی ایم ایف کے دیے گئے 225 ارب کے مزید اہداف کو حاصل کرنے کے لیے تنخواہ دار اور چھوٹے تاجر طبقے پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا۔ اور اس کے لیے تمام قانونی کارروائیاں مکمل کرنے کے لیے اپوزیشن وحکومت نے مل کر منی بجٹ بھی منظور کر لیا۔ جب کہ دوسری طرف اس ملک کی اشرافیہ کی جاگیروں سے حاصل کردہ آمدنی پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی اس کی شرح میں اضافہ کیا گیا۔
خصوصاً، زرعی پیداوار اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم) دونوں سکڑ گئے، جبکہ عمومی مہنگائی بڑھ کر کئی دہائیوں کی بلند سطح تک پہنچ گئی۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی میں پالیسی ریٹ میں مزید 225 بی پی ایس کا اضافہ کر دیا جبکہ اس سے قبل مالی سال 22ء کے دوران اس میں 675 بی پی ایس اضافہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح، حکومت نے گرانٹس، زر اعانت اور ترقیاتی شعبوں میں وفاقی اخراجات کم کر دیے۔ مزید برآں بیرونی کھاتے پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک نے درآمدات کو محدود کرنے کی خاطر مختلف ضوابطی اقدامات متعارف کرائے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملکی طلب میں نمایاں کمی کے باوجود مہنگائی کے اعدادو شمار مالی سال 22ء کی دوسری ششماہی سے بدستور بلند ہیں۔ مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران کئی عوامل صارف اشاریہ قیمت ملکی مہنگائی کو 25.0 فی صد تک لے گئے جن میں اجناس کی بلند عالمی قیمتیں، مہنگائی کی بلند توقعات اور بعض ملکی عوامل شامل ہیں جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں یہ 9.8 فی صد تھی۔ سیلاب کی بنا پر ہونے والی رسدی قلّت سے غذائی اشیا کے نرخ بڑھ گئے جس سے مجموعی مہنگائی، غیر غذائی غیر توانائی اور توانائی کے گروپوں میں بھی مہنگائی بڑھ گئی۔ اس صورتحال کا حکومت کو بھی پتا ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ علاوہ ازیں، مہنگائی کے دبائو کو مزید بڑھانے والے عوامل پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور بجلی کے نرخوں اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہیں۔ ان رسدی دھچکوں کے دورِ ثانی کے اثرات مزید اشیا کی قیمتوں اور اجرتوں پر پڑے، نیز مہنگائی کی توقعات میں بھی اضافہ ہوا چنانچہ مہنگائی بڑھ گئی۔ رپورٹ میں مالیاتی شعبے کا احاطہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اہم غیر سودی اخراجاتِ جاریہ میں کمی ہوئی خاص طور پر زرِ اعانت، گرانٹس، اور ترقیاتی اخراجات میں، جس سے مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران بنیادی فاضل رقم میں بہتری آئی۔ تاہم مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے لحاظ سے گزشتہ سال ہی کی سطح پر رہا کیونکہ سودی ادائیگیاں تیزی سے بڑھ گئی تھیں۔ محاصل کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایف بی آر کے ٹیکسوں میں اضافہ ہوا جس میں ٹیکس انتظامیہ کی کوششوں، مہنگائی، اور امانتوں پر بلند تر منافع کا دخل ہے۔ تاہم مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران درآمدات میں تیزی سے تخفیف اور معاشی سرگرمیوں میں بحیثیت ِ مجموعی کمی آنے سے ٹیکس وصولی ہدف سے کم رہی۔
یہ ساری صورتحال ملک کو کہاں لے جائے گی۔ معیشت میں رکاوٹ ہی رکاوٹ ہے اور اس کی وجہ سے ملک میں ہر آنے والے دن کے ساتھ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ بیرونی رقوم کی خاطر خواہ آمد کی عدم موجودگی میں حکومت نے اپنی قرض کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنیادی طور پر ملکی بینکوں اور نان بینک ذرائع پر انحصار کیا، زیادہ تر وسط مدتی رواں شرح آلات کے ذریعے۔ مالی سال 2023ء کی پہلی ششماہی کے دوران اقتصادی سست روی کے باعث نجی شعبے کے قرضوں میں کمی واقع ہوئی۔ نجی شعبے کے قرضے میں جاری سرمائے کے قرضوں کی نمو نمایاں طور پر کم ہوگئی جبکہ معین سرمایہ کاری لگ بھگ گزشتہ برس کی سطح پر ہی رہی۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال اور سخت عالمی مالی حالات کی وجہ سے مالی سال 2023ء کی پہلی ششماہی کے دوران بالعموم بیرونی شعبہ اور خاص طور پر بیرونی فنانسنگ خاصے دباؤ کے شکار رہے۔ اس کے علاوہ روس یوکرین تنازعے اور چین کی صفر کووڈ پالیسی کے نتیجے میں رسدی زنجیر میں رکاوٹوں نے عالمی طلب کو متاثر کیا، جس سے پاکستان کی برآمدی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔ رسد کے لحاظ سے سیلاب سے متعلق تعطل کے نتیجے میں فصلوں کی نفع یابی میں کمی واقع ہوئی، جس سے نہ صرف خوراک کی برآمدات متاثر ہوئیں بلکہ اجناس کی درآمدات کا منظرنامہ بھی بگڑ گیا۔ اسی طرح مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران کارکنوں کی ترسیلات زر میں بھی کمی آئی۔
عالمی اقتصادی سست رفتاری کے علاوہ غیر رسمی ذرائع کے استعمال میں اضافے سے بھی ملک کو ترسیلاتِ زر متاثر ہوئیں۔ تاہم مالی سال 23ء کی پہلی ششماہی کے دوران درآمدات میں ہونے والی نمایاں کمی سے برآمدات اور ترسیلات زر میں ہونے والی کمی کی تلافی ہوگئی، جس کی وجہ سے جاری کھاتے کے خسارے میں نمایاں کمی ہوئی۔ رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ مالی سال23ء کی پہلی ششماہی کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری کے باوجود رقوم کی آمد میں کمی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سبب بنی۔ آئی ایم ایف سے رقوم کی اقساط ملنے میں تاخیر اور ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتِ حال کے ساتھ ساتھ قرضوں کی طے شدہ واپسی اور زرمبادلہ کے خالص ذخائر سے رقوم کے انخلا اور سرمایہ کاری نکالے جانے کی وجہ سے بیرونی دبائو میں مزید اضافہ ہو گیا۔ مالی سال23ء کی پہلی ششماہی میں متعدد عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھنے اور مذکورہ پیش رفتوں کے مشترکہ اثرات کے سبب روپے کی قدر میں کمی آگئی۔ رپورٹ سے یہ پتا چل رہا ہے کہ ملک میں جاری معاشی صورتحال نے ملک کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔ کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر فراز الرحمان نے بتایا کہ ڈالرز کی کمی کی وجہ سے امپورٹ مکمل طور پر رک چکی ہے۔ خام مال کی عدم دستیابی سے انڈسٹری مکمل طور پر منجمد ہوکر رہ گئی ہے۔ سوال یہی ہے ان حالات میں ملک کا بجٹ معاشی تباہی میں کوئی رکاوٹ ڈال سکے گا؟