دیدہِ تر

635

یہ خوش آئند بات ہے کہ عدلیہ کو بھی اپنی بے توقیری کا احساس ہونے لگا ہے، جسٹس صاحبان اپنے فیصلوں کی بے حرمتی پر آبدیدہ ہونے لگے ہیں، سماعت کے دوران یہ ریمارکس دینے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ان کے فیصلے کی کوئی وقعت ہے نہ اہمیت ہے وہ ضمانت لیتے تو پولیس کسی دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیتی ہے، اگر جسٹس صاحبان اس بے توقیری کے اسباب اور وجوہ پر غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ جب عدالتیں ضمانتوں کا جمعہ بازار لگانے لگیں تو ضمانت بازار کی گالی بن جاتی ہے۔
چند سال پہلے کی بات ہے کہ بہاول پور کے ڈی آئی جی پولیس عدالت میں جا کر جج پر خوب برسے، گرجے اور کہا کہ ہم نے کئی ہفتے چولستان کی خاک چھاننے کے بعد مطلوبہ ملزم کو گرفتار کیا تھا اور تم نے ضمانت لینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگایا، مسند انصاف پر براجمان شخص خدا کی نیابت کے بجائے شیطان کی جاں نشینی کرنے لگے تو انصاف کی دیوی بینائی کے ساتھ ساتھ بولنے اور سننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو جاتی ہے، 9مئی کو جو کچھ ہوا وہ چشم نگراں کی چشم کشائی کا امتحان ہے، مگر جانے دو مٹی پائو کی روش سارے معاملے پر مٹی کی ڈالنے کی سعی ِ نامشکور کرتی دکھائی دے رہی ہے اس معاملے پر دیانتداری سے غور کیا جائے تو سقوط ڈھاکا کی نئی شکل دکھائی دے گی مشرقی پاکستان کا بنگلا دیش بننے کا پس منظر یہ ہے کہ عوام کو فوج سے متنفر کر دیا گیا تھا یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ عوام کو فوج سے بدظن کر دیا جائے تو فوج کمزور ہو جاتی ہے اور دشمن اسی کمزوری سے استفادہ کرتا ہے، 9مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس نے فوج کو کڑی آزمائش سے دوچار کر دیا ہے، مگر تین پانچ کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں، حالانکہ دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو فوج کی توہین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتا ہو، اگر معاملہ پیٹ کا ہو تو سب کچھ برداشت کر لیا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ 9مئی کو بھارتی فوج پاکستان میں داخل ہو جاتی تو کیا ہوتا، اس معاملے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا کی کہانی دہرانے کی سازش کی گئی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا ہے کہ وہ جس کی ضمانت لیتے ہیں پولیس اسے کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار کر لیتی ہے، شنید ہے کہ ان کے دکھ کا اظہار اتنا تکلیف دہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے سونامی بہہ نکلا گویا جو کمی سیاسی سونامی سے رہ گئی تھی وہ جسٹس صاحب کے آنسوئوں نے پوری کر دی اس پس منظر میں دیکھا جائے تو موصوف اپنے موجودہ عہدے سے نا اہل ہو چکے ہیں، کیونکہ مسند انصاف پر براجمان شخص جذباتی ہو جائے تو میزان عدل کے پلڑے توازن سے محروم ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک جج نے اپنے بیٹے کو سزائے موت سنانے کے بعد استعفا دے دیا تھا، وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا جس رات قتل ہوا تھا بیٹا اس کے ساتھ ہی تھا مگر شہادتیں اور ثبوت میرے بیٹے کو قاتل ثابت کررہے تھے اور فیصلہ ثبوت اور شہادتوں کی بنیاد پر دیا جاتا ہے سو میں نے قانون کے تقاضے کے مطابق اپنے بیٹے کو سزائے موت سنا دی حالانکہ میں اس حقیقت سے واقف تھا کہ ثبوت اور شہادتیں جھوٹی ہیں، یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب جس کی ضمانت لیتے ہیں تو پولیس کسی دوسرے مقدمہ میں گرفتار کر لیتی ہے، اس تناظر میں ان کے فیصلے کی بے توقیری کیسے ہوئی، کیونکہ ملزم کسی دوسرے مقدمہ میں پولیس کو مطلوب تھا اور گرفتار کر لیا گیا، البتہ اسی مقدمہ میں گرفتاری کی جاتی تو جسٹس صاحب کے فیصلے کی تضحیک ہوتی، مذکورہ جسٹس صاحب سے استفسار کیا جاسکتا ہے کہ 10،15 سال کسی مقدمہ کی سماعت نہ ہونا، ہر پیشی پر لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسانا کیا ہے یہ عدل و انصاف کا کون سا معیار ہے، یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ آج تک کسی بھی جسٹس نے اس پر دکھ کا اظہار نہیں کیا، کسی کی آنکھیں آبدیدہ نہیں ہوئیں، سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ عدلیہ سیاسی معاملات میں اتنی جذباتی کیوں ہو جاتی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جج اور جسٹس صاحبان کے اہل خانہ سیاسی کارکن اور سیاسی رہنما ہوتے ہیں، عدالت عظمیٰ از خود کارروائی میں جس مہارت کا اظہار کرتی ہے کاش کبھی ملکی معاملات میں بھی از خود کارروائی کرے کہ یہ کارروائی بہت ضروری ہے، کیونکہ سیاسی رہنما اورکارکن ملکی پرچم سے زیادہ اپنے پارٹی جھنڈے کو اہمیت دیتے ہیں، ملک سے زیادہ اپنے قائد کو اہمیت دیتے ہیں، 9مئی کو جو کچھ ہوا اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔