…!جناب وزیر اعظم! دعویٰ بہت بڑا ہے

773

حکومت نے 25 مئی کو ’’یوم تکریم شہداء‘‘ منانے کا اہتمام کیا اس موقع پر قوم نے وطن کی خاطر جانیں قربان کرنے والوں کو سلام پیش کیا ملک بھر میں تقاریب اور ریلیاں منعقد کی گئیں، بیرون ملک بھی یورپ، امریکہ، برطانیہ، مشرق وسطیٰ اور آسٹریلیا سمیت دنیا کے کونے کونے میں موجود پاکستانیوں نے تقریبات منعقد کر کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے ورثا سے اظہار یکجہتی کیا۔ جہاں تک شہداء کی عزت و تکریم کا تعلق ہے اس میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ پوری قوم اپنے شہداء کے لیے دل کی گہرائیوں سے سپاس گزار ہے اور ان کی قربانیوں کی معترف ہے، شہید کی جو موت ہے وہ یقینا قوم کی حیات ہے، شہدائے کرام وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل کو محفوظ بنانے کے لیے قربان کر کے لازوال رتبہ حاصل کیا۔ شہداء کے لیے قوم کے ان جذبات کی پشت پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کی تائید بھی پر زور انداز میں شامل ہے، اس سے بڑھ کر شہداء کے لیے خراج عقیدت اور کیا ہو سکتا ہے کہ خود خالق کائنات نے مسلمانوں کو حکم فرمایا ہے کہ:… ’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا، (سورۂ بقرہ: آیت 154) اللہ کی راہ میں جان قربان کر کے حیات جاودانی پانے والے شہداء کے بلند مرتبے اور فضائل سے متعلق رسول رحمت حضرت محمد مصطفی ؐ کے بہت سے ارشادات مبارکہ بھی احادیث کی کتب میں وارد ہوئے ہیں، قرآن حکیم اور رسول کریمؐ کی واضح ہدایات کے بعد کسی مسلمان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ شہداء کے بارے میں عزت و تکریم کے علاوہ کوئی دوسرا جذبہ اپنے دل و دماغ میں پروان چڑھائے، انسان تو ایک طرف شہدا کو تو وطن کی ہوائیں بھی سلام کہتی ہیں بقول شاعر: ؎
اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
وطن کی ہوائیں تمہیں سلام کہتی ہیں
یوں شہید پوری قوم کی مشترکہ میراث ہیں، جنہوں نے یہ نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے کہ ’’جان بھی دی ہوئی اسی کی تھی… حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ اپنی جان راہ حق میں قربان کر دی۔ قوم کا ہر ہر فرد ان کا مقروض ہے اور اپنا دینی و ملی فریضہ سمجھ کر ان کی قربانیوں کی قدر کرتا اور ان کے لیے جذبات تشکر سے سرشار ہے، تاہم یہاں ارباب اقتدار و اختیار سے پورے ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا لازم ہے کہ نو مئی کے انتہائی ناخوشگوار اور قابل مذمت واقعات کے بعد مسلسل جس انداز سے زور دار تشہیری مہم چلائی جا رہی ہے اس کے مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور دنیا میں یہ تاثر ابھر رہا ہے جسے ہمارا دشمن اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعے مزید اچھا ل رہا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو خود ملک کے اندر سے اور یہاں کے عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے اور یہ مزاحمت اس قدر شدید نوعیت کی ہے کہ قوم کا مشترکہ ورثہ وطن عزیز کی سالمیت کی خاطر جانیں نچھاور کر کے حیات ابدی کے مستحق قرار پانے والے شہداء کی عزت و تکریم بھی متنازع بن چکی ہے جسے بحال کرنے کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر تشہیری مہم اور دوسرے اقدامات کی ضرورت پڑ رہی ہے، ہمارا نہایت مخلصانہ مشورہ ہے کہ حکومت کو اس ضمن میں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور اگر کسی جگہ چند عناصر کی طرف سے جانے بوجھے یا انجانے میں کوئی ناقابل قبول حرکت سرزد ہو گئی ہے تو ان عناصر کو سزا تو ضرور دی جائے مگر اس معاملہ کو ایسے انداز میں مزید نہ اچھالا جائے جسے پاکستان کے ازلی دشمن اپنے مذموم مقاصد کے حصول اور پاکستانی قوم کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔ امید ہے کہ ارباب اختیار اس پہلو پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے…!!!
’’یوم تکریم شہداء‘‘ پر وزیر اعظم شہباز شریف نے ریڈیو پاکستان پشاور کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم سب ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو دیکھ کر دکھی ہیں۔ 9 اور 10 مئی کے دوران جو دل خراش واقعات رونما ہوئے اس نے پاکستان میں بسنے والے 23 کروڑ عوام کو شدید دلی صدمہ پہنچایا، جس سنٹر سے پاکستان بننے کی نوید سنائی گئی، اسے راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا، اس سے بڑھ کر ملک دشمنی نہیں ہو سکتی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں جناب وزیر اعظم نے یہ بھی فرمایا شہداء اور غازیوں کی بے حرمتی کرنے والے قومی مجرم ہیں، ہم قیامت تک دوبارہ ایسے واقعات نہیں ہونے دیں گے۔ جناب وزیراعظم نے جو کچھ فرمایا اس سے مجال اختلاف نہیں اور دعا ہے کہ واقعی قیامت تک ایسے کسی روح فرسا واقعہ کے اعادہ کی نوبت نہ آئے اللہ تعالیٰ ملک و قوم کو ایسے مزید سانحات سے محفوظ و مامون فرمائے تاہم وزیر اعظم صاحب نے جو دعوے ٰ کیا ہے کہ قیامت تک دوبارہ ایسے واقعات نہیں ہونے دیں گے اس پر یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ دعویٰ بہت بڑا ہے، ایسا دعویٰ کرناہے تو اس کے تقاضے بھی آپ کو پورے کرنا ہوں گے۔ جن میں سے اولین تقاضا یہی ہے کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور ان کی حکومت کے دیگر ارکان نو مئی کو اپنی نا اہلی اور فرائض کی ادائیگی میں ناکامی کا واضح الفاظ میں اعتراف کریں کیونکہ نو مئی کو جو کچھ ہوا اس کی روک تھام بہرحال حکومت کی ذمہ داری تھی جس کی ادائیگی میں وہ قطعی ناکام رہی اور یہ ناکامی کسی طور قابل معافی نہیں، پھر نو مئی کو اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ سب کچھ اچانک ہو گیا تب بھی جب دس مئی کو دوبارہ یہی کاروائی زیادہ شدت سے دہرائی گئی اس وقت حکومت کہاں تھی؟ ریڈیو پاکستان پشاور کی جس تاریخی عمارت کی تباہی پر آج ٹسوسے بہائے جا رہے ہیں، اس کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بروقت ٹھوس انتظامات کیوں نہیں کئے گئے؟ جناب وزیر اعظم قیامت تک ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے دینے کے دعوے سے پہلے آپ کو قوم کو یہ بتانا ہو گا کہ نو اور دس مئی کو ان واقعات کو روکنے میں ناکام رہنے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناقابل معافی کوتاہی کے مرتکب افراد کے خلاف کیا کارروائی اب تک کی گئی ہے اور اگر نہیں کی گئی تو کیوں؟؟؟ یہی معاملہ حساس فوجی تنصیبات کا بھی ہے ان کی حفاظت بھی کسی کی ذمہ داری تھی جس نے یہ ذمہ داری ادا نہیں کی۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی تحقیق اور تفتیش بھی ضروری ہے بہتر ہو گا کہ ان تحقیقات کو قابل اعتماد بنانے کے لیے اعلیٰ عدالتی سطح پر ان کا اہتمام کرایا جائے اور اس کے بعد نو مئی کو ان حساس تنصیبات کی بے حرمتی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہنے والے ان لوگوں کا احتساب اور اس سے متعلق عوامی آگاہی بھی قومی ضمیر مطمئن کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے…!!!