سندھ حکومت کی جانب سے ٹیچنگ لائسنس پالیسی متعارف

939
شعبہ تعلیم کا معیار بلند کرنے کیلئے سندھ حکومت کی جانب سے ٹیچنگ لائسنس پالیسی متعارف

کراچی:صوبہ سندھ کی کابینہ نے ٹیچنگ لائسنس کی نئی پالیسی کی منظوری دے دی ہے، جس کا مقصد ہنرمند نوجوانوں کو تدریسی پیشے کی طرف راغب اور اس شعبے کا مقام بلند کرنا ہے۔

ان تاریخی اصلاحات کا مقصد تدریسی پیشے کو اسی معیار اور عزت و احترام دلانا ہے جو میڈیسن، اکاؤنٹنگ، قانون اور انجینئرنگ سمیت دیگر پیشہ ورانہ مہارتوں کے حامل پیشوں کو حاصل ہیں۔

تدریسی شعبے سے وابستہ ہونے والے میں نئے افراد کو ملازمتوں کے حصول سے قبل ناصرف پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی بلکہ ایسا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے مراعات بھی دی جائیں گی۔

سندھ کے صوبائی وزیر برائے ثقافت، سیاحت اور نوادرات سید سردار علی شاہ نے تمام شراکت داروں کے تعاون کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ٹیچنگ لائسنس کی پالیسی کے بارے میں سوچنا اور اسے حقیقی شکل دینا آسان نہیں تھا۔

تاہم، میں آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ (AKU-IED)، سندھ ٹیچرز ایجوکیشن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (STEDA)، دوربین اور دیگر تمام شراکت داروں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس پالیسی کو ممکن بنانے کے لیے انتھک محنت کی۔ اساتذہ اور طلبا کی اگلی نسل کی کامیابی بالآخر اس کے کامیابی سے نفاذ پر منحصر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس نے ٹیچنگ لائسنس پالیسی کی منظوری دی ہے جو موثر تدریس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے لیے ایک فعال نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس پالیسی کے ساتھ، سندھ حکومت نے مزید مضبوط اور پیشہ ورانہ تدریسی افرادی قوت کی بنیاد رکھی ہے، جس کے صوبے کے تعلیمی منظرنامے پر مثبت اور دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

حکومت سندھ نے بھی نئی پالیسی کے نفاذ کی جانب پہلا قدم اٹھایا ہے۔BPS-16 میں سندھ بھر کے ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز (گریڈ 1-8 پڑھانے کے اہل افراد) کے لیے 700 نئی آسامیاں پیدا کی گئی ہیں۔ اس سے قبل، جونیئر ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز (JEST) کو BPS-14 میں شامل کیا جا رہا تھا اور ان کے لیے کسی بھی شعبے میں گریجویشن مکمل کرنا ضروری تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 700 نئی آسامیوں پر صرف بی ایڈ ڈگری پروگرام کے ان فارغ التحصیل افراد کو نوکری دی جائے گی جنہوں نے لائسنسنگ امتحان بھی پاس کیا ہے۔مقامی اور عالمی تحقیق کے ترقی کرتے ہوئے ادارے نے معیاری اساتذہ کی قدر و قیمت میں اضافہ کردیا ہے۔

پچھلی دہائی کی معاشی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ غیرمعیاری و غیر موثر اساتذہ (15فیصد کم) اساتذہ کے مقابلے میں معیاری اساتذہ (15فیصد زیادہ) ایک ہی تعلیمی سال میں تین گنا زیادہ سکھا سکتے ہیں۔ تین سے چار سال کی موثر تدریس کم آمدنی والے پسماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں اور دیگر طلبا کے درمیان کامیابی کے فرق کو بھی ختم کر سکتی ہے

۔ جیسا کہ مشہور کہاوت ہے کہ ایک اچھا معلم ایک معمولی نصاب کو ایک بہترین تدریسی تجربے کی شکل دے سکتا ہے۔ یہ اساتذہ کے معیار اور ان کے ساتھ تعاون میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے تعلیمی اصلاحات کرنے کے لیے ایک مضبوط کیس بناتا ہے۔ ٹیچر لائسنسنگ ایسا کرنے کے طریقوں میں سے ایک ہے۔

ٹیچر لائسنسنگ شعبہ تدریس میں نئے آنے والوں کے لیے کم از کم معیار کا تعین کرتی ہے، جو عوام کی نظر میں تدریسی شعبے کی حیثیت اور رتبے میں اضافے کا سبب بنے گی۔ یہ پاکستان اور عالمی سطح پر کئی دوسرے پیشوں میں دیکھا گیا ہے۔ مختصر مدت میں عوامی نقطہ نظر اور سوچ میں بہتری اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کا جواز فراہم کرے گی جبکہ اگر اس کے دور رس نتائج کو دیکھا جائے تو یہ ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کو اس پیشے کی طرف راغب کرنے میں بھی مدد کرے گی۔

پالیسی کی تیاری سے قبل آغا خان یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے تعلیمی ترقی کی سربراہی میں ایک سال طویل تحقیق اور مشاورت کی گئی تھی جس کا اختتام ایک وائٹ پیپر میں ہوا جس کا آغاز AKU-IED، STEDA اور Durbeen نے مشترکہ طور پر جون 2022 میں کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی یونیورسٹیوں، اسکول مینجمنٹ، اساتذہ، اساتذہ کی یونین، والدین اور طلبا سمیت بڑے پیمانے پر اسٹیک ہولڈرز سے اس حوالے سے مشاورت کی گئی۔ ضیاالدین یونیورسٹی سمیت کئی دیگر اداروں کے اسکالرز نے پالیسی سازی کے اس عمل کی کوششوں کے دوران تعاون کیا۔نئی پالیسی کے تحت بی ایڈ۔ گریجویٹ اب لائسنسنگ امتحان دینے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا لائسنسنگ کی کامیاب تکمیل پر انہیں تین زمروں میں سے کسی ایک میں تدریسی لائسنس دیا جائے گا جس میں ایلیمنٹری (گریڈ1-8)، پرائمری (گریڈ1-5) اور سیکنڈری (گریڈ6-12) شامل ہیں، موجودہ کل وقتی سرکاری اسکول کے اساتذہ موجودہ نظام کے مطابق ملازمت جاری رکھنے کا انتخاب کر سکتے ہیں یا اگر وہ پالیسی کے تحت تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لائسنسنگ امتحان کے لیے درخواست دے کر اپنی ترقی کی رفتار کو تیز کر سکتے ہیں، کنٹریکٹ پر مبنی اساتذہ مطلوبہ معیار پر پورا اتر کر لائسنسنگ کے عمل کے ذریعے ریگولرائزیشن کے عمل کو تیز تر کر سکتے ہیں،یہ اصلاحات پاکستان کی تعلیمی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، زیادہ تر اصلاحات عطیہ دینے والی ایجنسیوں کی تجاویز پر کی جاتی ہیں اور وہی اس کے لیے فنڈز بھی فراہم کرتی ہیں۔

انہوں نے فنڈنگ کی مدت کے دوران ملے جلے نتائج دیکھے ہیں اور عطیہ دہندگان کی معاونت کی مدت ختم ہونے کے بعد عام طور پر یہ کمزور پڑ جاتی ہیں۔ اس کے برعکس یہ ٹیچر لائسنسنگ پالیسی حکومت سندھ کی جانب سے شروع کی گئی ہے اور اسے پاکستانی اکیڈمی، اساتذہ، یونینز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔