سال2050تک سندھ کی آبادی95.7ملین تک پہنچ جائے گی،ماہرین 

356
سال2050تک سندھ کی آبادی95.7ملین تک پہنچ جائے گی،ماہرین 

کراچی:سندھ کی موجودہ 56.3ملین آبادی 2.41فیصداوسط سالانہ شرح نمو کیساتھ 2050تک95.7ملین ہوجائے گی۔

سندھ میں صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے دورانِ زچگی 3000ہزار خواتین کی سالانہ اموات ہوتی ہیں۔ اگر مانع حمل کی ادویات کا استعمال موجودہ 31فیصد سے بڑھ کر 40فیصد تک ہوجائے تو ان اموات میں 33فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

سندھ میں زچگی کی شرح 3.6فیصد ہے اور سندھ میں ایک ہزار بچوں میں سے 60بچے ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی موت کا شکار ہوجاتے ہیں جبکہ 5سال کی عمر سے کم 50فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سندھ میں 5سے 16سال کی 51فیصد لڑکیاں اور 39فیصد لڑکے تعلیم سے محروم ہیں۔شرکا نے کہاکہ فیملی پلاننگ، تعلیم اور خواتین کو بااختیار کیے بغیر بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوں گی۔

ماہرین نے ان خیالات کا اظہار جمعرات کو کراچی میں وزارتِ ترقی و منصوبہ بندی اور اقوام ِمتحدہ پاپولیشن فنڈ(UNFPA)کے اشتراک سے منعقدہ رضاکارانہ قومی سروے اور آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس کے بارے میں مشاورتی ورکشاپ کے دوران کیا۔ مشاورت کا مقصد آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس پروگرام کے نفاذ میں صوبائی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیناتھا۔

ورکشاپ میں شرکا نے کہاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کی عوام کو صحت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ہمیں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔

کانفرنس میں صوبہ سندھ میں تولیدی صحت کو آگے بڑھانے، صنفی مساوات کو فروغ دینے اور خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے کیلئے پیش رفت پر روشنی ڈالی گئی۔ اس موقع پر پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں جنسیت کی جامع تعلیم، معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی اور صنفی بنیادپر تشدد کے خاتمے کے اہم کردار کو بھی سراہاگیا۔

ورکشاپ میں وزارتِ منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات (MoPD&SI)یواین ایف پی اے (UNFPA)، قومی مشیربرائے آئی سی پی ڈی،پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ، پاپولیشن ویلفیئر ڈپارٹمنٹ سمیت محکمہ صحت سندھ کے نمائندوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر یو این ایف پی اے سندھ آفس کی سربراہ بیرام گل نے کہاکہ اس طرح کی مشاورت انسانی حقوق، آبادی،جنسی اور تولیدی صحت، صنفی مساوات اور پائیدار ترقی کے بارے میں متنوع نظریات کی سہولیات فراہم کررہی ہیں۔

آئی سی پی ڈی پروگریسو ریویوکنسلٹیشن نے سرکاری افسران، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، اکیڈمی اور ڈیولپمنٹ شراکت داروں سمیت مختلف شعبوں کے اہم اسٹیک ہولڈرز کو جمع کیا۔ شرکا نے صوبہ سندھ میں آئی سی پی ڈی پروگرام آف ایکشن کے نفاذ سے متعلق کامیابیوں، چیلنجزاور مواقعوں کا جائزہ لیا۔آگے بڑھتے ہوئے مکمل سیاسی ملکیت اور موئثر حکمرانی کے ساتھ ایک پائیدار کثیر شعبہ جاتی نقطہ نظر ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے بہت ضروری ہے۔

سندھ کے پارلیمانی سیکریٹری ہیلتھ قاسم سومرو نے اس موقع پر کہاکہ آبادی کی پالیسی پر عمل درآمدکو قومی ترجیح اور ایک جامع فریم ورک بنانا پاکستان کی پائیدار ترقی کیلئے اہم ہے۔ سندھ کی آبادی کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے بیرام گل نے کہاکہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مطلب خوراک، اسکولوں، صحت کی سہولیات، ملازمتوں اور بنیادی ڈھانچے کی مسلسل بڑھتی ہوئی طلب سے حکومت پران خدمات کوتیزرفتاری سے فراہم کرنے کیلئے دبا بڑھ رہا ہے۔

ورکشاپ میں سندھ حکومت نے پائیدار ترقی اور آبادی کے انتظام کیلئے ایک اہم فریم ورک کے طورپر تسلیم کرتے ہوئے آئی سی پی ڈی پروگرام آف ایکشن کو ترجیح دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔ سندھ حکومت اس پروگرام کے موئثر نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے تکینکی سپورٹ، ایکسپرٹیز، اوروسائل کی فراہمی کے ذریعے یو این ایف پی کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ 

پاکستان کے موجودہ ملکی اخراجات خاندانی منصوبہ بندی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کو کامیاب اور پائیدار بنانے کیلئے ان پر عمل درآمد کیلئے مضبوط قومی صلاحیت کے ساتھ فیملی پلاننگ کموڈیٹیز، خدمات کی فراہمی، مالی وسائل کو متحرک اور خرچ کرنے کی صلاحیت اور ٹریننگ سمیت عوامی فنڈز کی مختص رقم میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔

  آئی سی پی ڈی پروگریس رویو کنسلٹیشن کے نتائج سندھ میں آئی سی پی ڈی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے شواہد پر مبنی پالیسیوں، حکمتِ عملی اور ایکشن پلان کی تکمیل میں معاون ثابت ہوں گے۔ حکومتِ سندھ یو این ایف پی اے کی کوآرڈی نیشن کے ساتھ سندھ کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاکہ ترقی کی رفتار کو تیز، موجودہ خلا کو دور اور سندھ کے لوگوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔

ورکشاپ میں حصہ لینے والے اسٹیک ہولڈرز نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پاکستان کی عوام کو صحت، تعلیم، خوراک سمیت بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ہمیں آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔

مشاورتی ورکشاپ کے شرکا نے خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے،تولیدی صحت اور حقوق، آبادی اور پائیدار ترقی، تعلیم، فوڈ سیکیوریٹی،موسمیاتی تبدیلی، شہری آبادکاری اور نقلِ مکانی پر پیش رفت کو تیزکرنے کیلئے مسائل، چیلنجزاور آگے بڑھنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کیلئے مختلف سیشنز کا انعقاد کیا۔