عمران خان، اسٹیبلشمنٹ ٹکرائو،سلمان عابد

350

انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں جن کی ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی وہ اس وقت ہمیں حکومتی سطح پر ہی دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔

9مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست کو دفاعی حکمت عملی پر جانا پڑا ہے ۔ عمران خان اور تحریک انصاف پر حالیہ دنوں میں ایک مشکل وقت کا سامنا ہے ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک اور قیادت سے کارکنان تک سب پر سنگین نوعیت یا دہشت گردی سمیت دیگر بڑے مقدمات کا سامنا ہے ۔ تحریک انصاف کے بقول اب تک ان سات ہزار کارکنوں کو مختلف مقدمات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے اور اس وقت پارٹی کے مختلف اہم لوگوں پر دباو ڈال کریا ڈراکر مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ خود کو تحریک انصاف یا عمران خان کی سیاست سے علیحدہ کرلیں وگرنہ ان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا ۔عمران خان کے مخالفین 9مئی کے واقعات کو بنیاد بناکر ان کو او ران کی جماعت کو نہ صرف دہشت گرد ثابت کرنا چاہ رہے ہیں بلکہ ان کی جماعت پر پابندی لگانے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں ۔ اسی طرح ان کے گرفتار کارکنوں پر فوجی عدالتوں کے ذریعے مقدمات چلانے کی باتیں بھی کی جارہی ہیں ۔9مئی سے پہلے تحریک انصاف ایک اور جگہ کھڑی تھی جبکہ اب وہ دوسری جگہ پر کھڑی ہے ۔اس کو اپنی پارٹی کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ اگرچہ عمران خان 9مئی کے واقعات کو اپنے او راپنی جماعت کے خلاف کے ایک بڑی سازش سے جوڑتے ہیں او ران واقعات کی جوڈیشل انکوائری کی بات کرتے ہیں مگر ان کی بات فی الحال کوئی سننے کو تیار نہیں ۔ میڈیا پر بھی عمران خان پر پابندی ہے او روہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے آج سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں۔تحریک انصاف پر جو وقت آج آیا ہے یہ کوئی نئے واقعات نہیں ۔ کیونکہ ہماری سیاسی تاریخ ان واقعات سے ہی بھری پڑی ہے ۔ ماضی میں پیپلزپارٹی , مسلم لیگ , جماعت اسلامی او رایم کیو ایم کو اسی طرح کی اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے مزاحمت کا سامنا تھا او ران ہی جماعتوں میں کی جانے والی توڑ پھوڑ بھی ماضی کی سیاست کا حصہ ہے ۔اس لیے آج جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے وہ فطری امر ہے او ردیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی بھی اس عمل سے گزررہی ہے ۔دوسری جانب پی ٹی آئی پر جو دباؤ آیا ہے تو اس کو بنیاد بنا کر حکمران اتحاد بھی تحریک انصا ف کے خلاف سرگرم ہوگیا ہے ۔ اول حکمران اتحاد 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر عمران خان کو نااہل کروانا چاہتا ہے ۔ دوئم ان کو تشدد پسند او ران کی جماعت تحریک انصاف کو دہشت گرد بنا کر ان کی جماعت پر پابندی لگانا بھی حکومتی حکمت عملی کاحصہ ہے ۔ سوئم حکمران اتحادی وہ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک ٹکراو کی سیاست پیدا کرنا چاہتے ہیں او رثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عمران خان او ران کی سیاست اسٹیبلیشمنٹ کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے ۔ چہارم وہ سیاسی کارکنوں پر فوجی عدالتوں پر مقدمہ چلانے کی حمایت کرکے سیاسی کارکنوں میں خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ کوئی دوبار ہ پی ٹی آئی کی مزاحمتی سیاست کا حصہ نہ بنے ۔اس وقت جو کچھ تحریک انصاف کی قیادت او رکارکنوں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ انسانی حقوق کی پامالی ہے وہ واقعی قابل مذمت ہے ۔ انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں جن کی ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی وہ اس وقت ہمیں حکومتی سطح پر ہی دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ سیاسی کارکنوں پر دہشت گردی کے مقدمات واقعی سنگین نوعیت کا مسئلہ ہے اور اس طرح سے ہم سیاسی کارکنوں کو عملی سیاست سے دور رکھ رہے ہیں جو سیاست او رجمہوریت کے حق میں نہیں ہے ۔ جن لوگوں نے 9مئی کے واقعات کیے ہیں ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن سارے سیاسی کارکنوں کو اس طرح سے گرفتار کرنا اور عدالتوں سے رہائی کے باوجود ان سیاسی کارکنوں کی گرفتاری سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ شدت پیدا ہوگی ۔اب جس انداز میں پارٹی کی اعلی قیادت پر دباو ڈالاجارہا کہ وہ بھی مقدمات اور قید سے بچنے کے لیے تحریک انصاف اور عمران خان سے علیحدگی اختیار کریں وہ بھی سیاست اور جمہوریت کے حق میں نہیں ۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کافی تکلیف دہ ہے ۔ شاہ محمود قریشی , اسد عمر ,اسد قیصر , میاں محمود الرشید , جمشید اقبا ل چیمہ , مسرت چیمہ , فواد چوہدری , علی زیدی , عمران اسماعیل , فردوس نقوی کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ غلط ہے او ر اس سارے کھیل کی ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر پڑرہی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ کسی اور جماعت میں نہیں جارہے بلکہ سیاست سے ہی خو د کو علیحدہ کررہے ہیں جو ظاہرکرتا ہے کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا ہے ۔

9مئی کے واقعات کے بعد عمران خان , حکومت او راسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو کچھ بھی مفاہمت کی سیاست او رانتخابات پر اتفاق رائے کو پیدا کرنے کیے کیا جارہا تھا وہ بھی اس وقت بگاڑ کا شکار نظر آتا ہے ۔ کیونکہ ان واقعات کی بنیاد پر سب ہی فریقیوں میں بداعتمادی کا ماحول اور زیادہ بگڑ گیا ہے ۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 9مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی قبولیت چیلنج ہوگئی ہے اور سب ہی فریق پی ٹی آئی کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر دیکھ رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ اس وقت پاکستان میں ہورہا ہے یہ کوئی نئی بات ہے؟ اور یہ اسکرپٹ بھی پرانا ہے او رکہانی بھی پرانی ہے او رہم ماضی میں اس کھیل کی کئی کہانیاں دیکھ چکے ہیں ۔لیکن اصل غلطی پی ٹی آئی کی ہے کہ اس نے 9 مئی کے واقعا ت کو روکنے میں کوئی موثر کردار ادا نہ کیا ۔ممکن ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ موقف درست ہو کہ ان کے خلاف 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنانا ایک بڑی سازش ہے ۔ لیکن اس کے باوجود غلطی پی ٹی آئی کی ہے کہ وہ درست سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے میں ناکام رہی اور اب ان کو 9مئی کے واقعات کی بنیاد پر بڑی سیاسی قیمت اداکرنا پڑرہی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان حالات میں مفاہمت کی سیاست کا ایجنڈا پیچھے رہ گیا ہے اور اس وقت تحریک انصاف کو دہشت گرد جماعت ثابت کرنا حکمران اتحاد کا مرکزی ایجنڈا ہے او راس کو ہی بنیاد بنا کر ہم یہ دیکھ رہے ہیں پورے میڈیا میںحکومتی حمات سے چلنے والی مہم میں عمران خان دہشت گرد او رپی ٹی آئی دہشت گرد جماعت کے طور پر دکھائی جارہی ہے جوسیاسی انتشار کو بڑھائے گا۔اب جب مفاہمت کی بات کی جارہی ہے تو حکمران اتحاد کے بقول کس سے مفاہمت کی جائے وہ لوگ جو دہشت گردی یا ریاست پر حملہ آور ہوئے ہیں ان سے مذاکرات کرنا ممکن نہیں ۔ اگرچہ اب بھی یہ کوشش ہورہی ہے کہ ان حالات میں بھی دونوں فریقوں میں مفاہمت کا دروازہ بند نہ ہو۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ اب وہ لوگ غالب ہوگئے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مفاہمت کی بجائے ٹکراو کی سیاست کو غلبہ دیا جائے ۔عمران خان مفاہمت کی بات کررہے ہیں مگر ان کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے ہی سخت مزاحت کا سامنا ہے ۔دوسری جانب ایک طرف حکمران اتحاد مفاہمت کی بجائے عمران خان سے سیاسی فاصلہ رکھنا چاہتا ہے تو ہمیں دوسری طرف اسٹیبلیشمنٹ بھی عمران خا ن سے فاصلے پر نظر آتی ہے ۔ 9مئی کے واقعات کے بعد اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے طرزعمل سے سخت نالاں ہے او ران کے بقول ان معاملات کو آسانی سے قبول نہیں کیا جائے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف داخلی سیاست میں جو بھی عمران خان مخالف ہیں وہ مفاہمت کی سیاست کے خلاف ہیں اور چاہتے ہیں کہ عمران خان کو سیاسی دیوار سے لگایا جائے جن میں ان کی نااہلی , گرفتاری اور پارٹی پر پابندی ہے ۔مگر دوسری طرف ہمارے علاقائی مماک جن میں چین , سعودی عرب , قطر , یو اے ای جیسے ممالک ہم پر یا ریاست پر دباو بڑھا رہے ہیں کہ پاکستان کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہیے او رسیاسی استحکام ان کے ایجنڈے کا اہم حصہ ہونا چاہیے ۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمارے داخلی مسائل اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے سامنے سنجیدہ نوعیت کے مسائل بہت پیچھے چلے گئے ہیں او رہم خود ہی ٹکراو کی سیاست کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناچکے ہیں ۔

یہ سارا بحران جو ہم دیکھ رہے ہیں اس کی ابتدا انتخابات سے انکار کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ 14مئی کو ہونے والے پنجاب کے انتخابات نہیں ہوسکے اور بار بار عدالتی حکم کے باوجود الیکشن کمیشن , نگران حکومت اور وفاقی حکومت انتخابات نہیں کرواسکی او ران کے بقول ہم کسی بھی صورت میں محض صوبوں میں انتخابات کے حامی نہیں ۔ ملک بھر میں ایک ہی وقت پر انتخابات پر اتفاق رائے ہے مگر انتخابات کس وقت ہونگے او رکیسے ہونگے اس پر حکومت اور عمران خان میں کوئی اتفاق نہیں ہوسکا ۔سپریم کورٹ بھی ان معاملات پر بار بار یہ ہی مطالبہ حکومت او ر پی ٹی آئی سے کررہے ہیں کہ وہ مل بیٹھ کر خود ہی مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرلیں مگر اب تک سیاسی قوتوں میں اس پرکوئی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ۔ مگر وفاقی حکومت ہو یا نگران حکومتیں یا الیکشن کمیشن کوئی بھی انتخابات کے حق میں نہیں اور ان کے بقول موجود حالات میں انتخابات ممکن نہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں کہ یہ انتخابات اکتوبر میں بھی منعقد ہوسکیں گے یا نہیں کیونکہ بہت سے حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے وزرا کے بقول اس برس عام انتخابات بھی ممکن نہیں اور انتخابات سے پہلے حالات کو سازگار بنانے کے لیے ہمیں پہلے بہت کچھ کرنا ہے اور پھر انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے ۔کیونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ موجودہ حالات میں اگر انتخابات اکتوبر میں بھی ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا ۔اب بھی اگر ہم نے بحران سے نکلنا ہے تو اس کا واحد علاج قومی سطح پر نئے انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہے ۔لیکن لگتا ہے کہ ہم بحران سے نکلنا ہی نہیں چاہتے اور مسئلہ کا حل اتفاق رائے کی بجائے ٹکراو کی سیاست میں دیکھ رہے ہیں جو حالات کو مزید بگاڑ کی طرف دکھیل رہا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کی گرفتاری , نااہلی یا ان کی جماعت پر پابندی ہمارے سیاسی اور معاشی مسائل کو حل کرسکے گی تو اس کا جواب نفی میں ملے گا ۔ کیونکہ اگر ہم نے طاقت کے زور پر کسی بھی سیاسی جماعت کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج نہ ماضی میں درست ہوسکے او رنہ آگے مثبت نتائج مل سکیں گے ۔اب بھی وقت ہے کہ ہمارے تمام اسٹیک ہولڈرز پر یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ موجودہ حالات میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں اور انتخابات پر ہی اتفا ق کریں ۔ کیونکہ اکتوبر میں ہم نے عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے اس سے زیادہ اگر ہم نے انتخابات سے گریز کیا تو موجودہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے ۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم انتخابات کی تاریخ اور اس کی شفافیت پر اتفاق کریں اور ملک کو موجودہ بحران سے باہر بھی نکالیں اور آگے بڑھنے کا سیاسی راستہ بھی تلاش کریں ۔

عمران خان کو بھی موجودہ سیاست سے سبق سیکھنا ہوگا کہ ان کی سیاسی مہم جوئی نے ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔وہ ضرور اپنی سطح پر مزاحمت کی سیاست کریں یہ ان کا حق ہے مگر اس مزاحمت میں محض جذباتیت نہ ہو بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس میں کچھ ٹھیراو بھی پیدا کریں ۔ کیونکہ ہر چیز کا علاج فوی طور پر ممکن نہیں اور نہ ہی ٹکراو کی سیاست سے کچھ حاصل ہوسکے گا۔ عمران خان ماضی میں بھی اور آج بھی سیاسی طور پر تنہا آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر اب ان کے لیے یہ ممکن نہیں بلکہ ان کو سیاسی جماعتوں کے ساتھ مکالمہ کا انداز اختیار کرنا ہوگا اور ایک ایسا مشترکہ پروگرام ترتیب دینا ہوگا جس کی مدد سے وہ سیاسی طور پر بھی آگے بڑھ سکیں اور ملک کو بھی ایک بڑے بحران سے نکال سکیں ۔ عمران خان او ران کی جماعت پر مشکل وقت ہے لیکن اگر وہ تدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو اس سے ان پر یہ برا وقت بھی گزر جائے گا اور ان کے لیے نئے سیاسی امکانات بھی پیدا ہونگے ۔عمران خان ایک مقبول سیاسی راہنما اور پاپولر سیاست میںاپنے مخالفین سے بہت آگے ہیں اور اب ان کی حیثیت سب سے بڑے طاقت ور کی ہے ۔ ایسے میں عمران خان پر ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے اور لوگ ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاست سے ملک کے حالات کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔