سوڈان کے آئینے میں پاکستان کی تصویر

764

افریقا کا ایک بڑا ملک سوڈان اس وقت بدترین انارکی، تقسیم اور تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ چار ہفتے سے اس ملک میں دو جرنیلوں کی وفادار فوجیں آمنے سامنے ہیں اور اچھی بھلی فوج وارلارڈ کی ملیشیا بن کر آپس میں لڑ رہی ہے۔ اکثر تجزیہ نگار اس صورت حال کا سیاسی پہلو بیان کرتے ہیں اور بہت کم لوگ اس بدامنی اور تقسیم کے پیچھے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے کردار کی تحقیق کر رہے ہیں۔ سوڈان کے موجودہ سیاسی بحران میں معاشی حالات کا گہرا دخل ہے۔ حالیہ چند ہفتوں کے تصادم میں سات سو افراد مارے جا چکے ہیں۔ ہزاروں شہری دارالحکومت خرطوم سے نکل کر محفوظ مقامات کو منتقل ہو گئے ہیں۔ اس بحران کو فوجی اور نسلی بحران کے زاویے ہی سے دیکھا جا رہا ہے مگر حقیقت میں اس کے محرکات میں معیشت بھی شامل ہے۔ سوڈان میں چھے سو نسلی گروہ ہیں اور چار سو زبانیں مستعمل ہیں۔ اسلام اس ملک کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ سوڈان ایک غیر مستحکم سیاست کا حامل ملک ہے۔ اکثر یہ ملک فوجی آمریتوں کا شکار رہتا ہے اور کبھی کبھار جمہوریت بھی اپنا جلوہ دکھا کر رخصت ہوجاتی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں یہ ملک دو خانہ جنگی اور تین فوجی بغاوتوں کے حادثے سہہ چکا ہے۔ ان میں جنرل عمر البشیر کی تیس سالہ آمریت بھی شامل ہے۔ جس کے بعد تھوڑے سے وقفے کے لیے عبداللہ حمدوک کی نگران حکومت قائم ہوئی مگر ایک بار پھر اس حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔
سوڈان افریقا میں تیل کی پیداوار اور سب سے زیادہ قابل کاشت زمین کا حامل سب سے بڑا ملک ہے۔ تیل کے وسائل اور زراعت کے پوٹنشل کے باجود یہ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں پر چل رہا ہے۔ سوڈان اب تک آئی ایم ایف سے گیارہ بار قرض لے چکا ہے۔ ان میں پانچ بار جعفر النمیری کی حکومت قرض لے چکی ہے اور یوں حکمرانوں کی ان طویل عرصے سے چلے آنے والی پالیسیوں کے باعث یہ ملک بھی آئی ایم ایف کی سخت گرفت کا شکار ہوچکا ہے۔ آئی ایم ایف کی ہدایات اور دبائو پر جب بھی کوئی حکومت سبسڈیز ختم کرتی ہے جس کا منطقی نتیجہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے تو عوام میں بے چینی کی لہریں پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے باعث اور حکمران طبقات کی دوراندیشانہ پالیسیوں سے گریز کی حکمت عملی نے اس باوسیلہ ملک میں دو معاشی اور سماجی اور طبقات کو جنم دیا ہے ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے جو عالمی اداروں اور کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کیے ہوئے ہے اور سوڈان کے معدنی وسائل کو بقائے باہمی کے اصول کے تحت مل بانٹ کر ہضم کر رہے ہیں اور دوسرے طبقے کے حصے میں فقط غربت، تنگ دستی اور عسرت ہی آتی ہے۔ آئی ایم ایف نے سوڈان کو اس وقت بھی سبسڈیز ختم کرنے سے مبرا قرار نہیں دیا جب پوری دنیا کورونا وائرس کے باعث شدید معاشی مشکلات کا شکار تھیں اور سوڈان جہاں پہلے ہی موسماتی تبدیلیوں کے باعث خوراک اور اجناس کے مسائل تھے اس جھٹکے سے مزید ہل کر رہ گیا۔ یوکرین کی جنگ نے یورپ کی مضبوط معیشتوں کے استخوان لرزہ کر رکھ دیے تو سوڈان جیسی ڈولتی معیشت کا حامل ملک بھی ان جھٹکوں سے مزید تباہ حال ہوکر رہ گیا۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف نے سوڈان پر دبائو بڑھاتے ہوئے سبسڈیز ختم کرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔
سوڈان کے رواں بحران کی بنیادوں میں معاشی پالیسیاں اور معیشت کی خستہ حالی ہی جھلک رہی ہے۔ آئی ایم ایف نے زراعت کے شعبے میں سوڈانی حکومت پر لبرلائزیشن کی پالیسی مسلط کی۔ کہا یہ گیا کہ یہ پالیسی برآمدات بڑھانے اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ضروری ہے۔ اس سے حکومت کے ہاتھ پائوں بندھ گئے اور وہ بیرونی سرمایہ کاروں کے آگے ڈھیر ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ حکومت مقامی سرمایہ کاروں کو مضبوط بناکر مسابقت کا ماحول بناتی بیرونی سرمایہ کاروں نے سوڈان کو ایک نوآبادیاتی انداز میں اپنی آماجگاہ بنالیا۔ مقامی سرمایہ کار یا باشندہ بیرونی کمپنیوں کا مقابلہ کیا خاک کرتا اس سے غربت کی شرح مزید بڑھ گئی اور مقامی سرمایہ کاری قریب قریب بیٹھ ہی گئی۔ یوں لبرلائزیشن کی آئی ایم ایف کی پالیسی نے غربت میں اضافہ کر دیا۔ اس طرح سوڈان عالمی اداروں یا غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں ایک ’’عالمی زرعی فارم‘‘ بن کر رہ گیا۔ سوڈان کے رواں بحران کی جڑیں بھی آئی ایم ایف کی دبائو پر مبنی پالیسی میں ہیں۔ 2018 میں عمر البشیر کی حکومت پر آئی ایم ایف نے دبائو ڈال کر ایندھن اور گندم پر سبسڈیز ختم کرائیں۔ اس کے ساتھ ہی عمر البشیر کے خلاف عوامی بے چینی کے بعد ایک اور کامیاب بغاوت ہوئی۔ اس دوران سیکڑوں افراد مارے گئے۔ اس کے بعد سویلین صدر عبداللہ حمدوک کے دور میں آئی ایم ایف نے ایک اور قسط مزید مہنگائی کی شرط کے ساتھ جاری کی۔ جس کے بعد سوڈان مسلسل سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہو کررہ گیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ ملک بدترین انارکی کا شکار ہو چکا ہے اور بیرونی ممالک اب فریقین کے مابین مصالحت کروا رہے ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حالات میں بھی آئی ایم ایف کا کردار کچھ اچھا نظر نہیں آرہا۔ پاکستانی حکمرانوں نے بھی ملک کو تمام وسائل کے باوجود آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر لاکر چھوڑا ہے۔ اس چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوئے بغیر اب پاکستان کی معیشت چلنے سے انکاری ہے۔ آئی ایم ایف حکمرانوں سے مہنگائی کا تازیانہ چلوانا چاہتا ہے اور اس کی زد عام اور غریب شخص پر ہی پڑتی ہے۔ پاکستان کے معدنی اور قدرتی وسائل کہاں جاتے ہیں کسی کو خبر نہیں۔ اس ملک میں بھی مڈل کلاس ختم ہو چکی ہے اور ایک طرف خوبصورت آراستہ وپیراستہ ہائوسنگ سوسائٹیز کے مقیم ہیں تو دوسری طرف خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے عوام ہیں جن کی تعداد تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ معاشی اونچ نیچ کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ آج بھی پاکستان آئی ایم ایف کی تمام شرائط بظاہر پوری کر چکا ہے مگر آئی ایم ایف بہت پراسرار انداز میں قرض کی قسط روک کر بیٹھا ہے۔ جس سے یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ کیا آئی ایم ایف پاکستان کی ریاست سے کوئی بڑا مطالبہ منوانا چاہتا ہے؟ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت جدید فوج اور اسلحہ کا حامل ملک ہے جس کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس قدر بڑی آبادی بڑے رقبے کا حامل آئی ایم ایف کے ہر مطالبے کے آگے نہ تو ڈھیر ہو سکتا ہے اور نہ موجودہ معاشی بدحالی کی سطح پر آئی ایم ایف کے احکامات کی کھلی سرتابی کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی تصدیق کے بغیر کوئی دوست ملک بھی مالی تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ملک کو اس مشکل صورت حال سے نکالنے کی سوچ کہیں غالب دکھائی دیتی ہے نہ یہ صلاحیت کہیں نظر آتی ہے۔ بس دن گزارنے کی پالیسی ہے جس میں ملک کا معاشی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ سری لنکا کے بعد سوڈان کے حالات میں پاکستان کے منصوبہ سازوں کو سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے مگر سیکھنے سے زیادہ سکھانے کا سودا سروں میں سمایا ہو تو یہی کہا جا سکتا ہے۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔