مغربی تہذیب کے اثرات

2532

جدید مغربی تہذیب کے غلبے نے دنیا میں تین طرح کے تجربات خلق کیے ہیں۔ پہلا تجربہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور اس کے علمبردار امریکا پہنچے اور انہوں نے دو سو سال میں آٹھ سے دس کروڑ ریڈ انڈینز کو قتل کرکے ان کی نسل ہی ختم کردی اور جو ریڈ انڈینز باقی رہ گئے ان کا یہ حال کردیا کہ نہ ان کا مذہب باقی رہا نہ ان کی تہذیب باقی رہی، نہ ان کی زبان زندہ رہی۔ یعنی مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے ریڈ انڈینز کی اکثریت کو مار ڈالا اور باقی لوگوں کی تہذیب کو موت کے گھاٹ اُتار کر انہیں تہذیبی طور پر فنا کردیا۔ امریکا اس سلسلے کی واحد مثال نہیں ہے۔ مغربی تہذیب کے علمبردار آسٹریلیا میں داخل ہوئے تو وہاں ایب اوریجنز آباد تھے اور پورا براعظم آسٹریلیا ان کی ملکیت تھا۔ یہاں بھی مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے نسل کشی کی اور ایک ڈیڑھ صدی میں چالیس پینتالیس لاکھ ایب اوریجنز کو قتل کردیا۔ باقی بچ جانے والے ایب اوریجنز کی تہذیب و ثقافت کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن ایب اوریجنز قدرے سخت جان ثابت ہوئے۔ ان کی تہذیب و ثقافت کا کچھ حصہ باقی رہ گیا۔ چناں چہ چند سال پہلے آسٹریلیا کے سفید فاموں نے اپنے تاریخی کردار پر معذرت کی ہے اور آسٹریلیا کی ریاست تسمانیہ کو ایب اوریجنز کی ریاست قرار دے کر ایب اوریجنز سے کہا کہ وہ اس ریاست میں اپنے مذہب اور تہذیب و ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکتے ہیں۔
بعض لوگ جدید مغربی تہذیب اور عیسائیت کو ہم معنی سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ جدید مغربی تہذیب عیسائیت کے خلاف بغاوت ہے اور اس تہذیب نے یورپ میں عیسائیت کا یہ حال کردیا ہے کہ یورپ میں عیسائیت کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی یورپ کے 70 فی صد لوگ خدا اور مذہب پر ایمان نہیں رکھتے۔ مشرقی یورپ میں خدا اور مذہب کے منکرین کی تعداد تقریباً 80 فی صد ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سوال یہ ہے کہ عیسائیت کا یورپ سے کیا رشتہ ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عیسائیت یورپ کا ماضی ہے۔ یورپ کی ’’تاریخ‘‘ ہے۔ یورپ کی روح سے محروم ’’تہذیب‘‘ ہے۔ عصر حاضر کے حوالے سے دیکھا جائے تو یورپ کو اپنا عیسائی ہونا دو مواقع پر یاد آتا ہے۔ ایک اس موقعے پر جب اسے کرسمس کا تہوار منانا ہوتا ہے اور دوسرے اس وقت جب اسے اسلام اور مسلمانوں سے کسی نہ کسی قسم کا مقابلہ درپیش ہوتا ہے۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ اس طویل مدت میں ہندوئوں نے اسلام اور اسلامی تہذہب سے گہرے اثرات قبول کیے لیکن اس عرصے میں ہندوازم، ہندوازم رہا اور ہندو، ہندو رہے لیکن جدید مغربی تہذیب نے صرف دوسو سال میں ہندوستان کو ’’سیکولر‘‘ بنادیا۔ بلاشبہ ہندوازم آج بھی ہندوستان کا سب سے بڑا مذہب ہے لیکن ہندوئوں کی بڑی تعداد کے لیے اس کی اہمیت یا تو تاریخ کی ہے یا صرف ایک اسطوریا Myth کی۔ اور Myth کی تعریف عصر جدید میں ہندوازم کے سب سے بڑے ماہر آنند کمار سوامی نے یہ کی ہے کہ Myth ایک ایسا تصور ہے جس کی حقیقت گم ہوچکی ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندوازم موجود ہے مگر اس کی حقیقت کھوگئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ ہندوازم کی الٰہیات باقی رہی۔ نہ اس کا تصور علم زندہ ہے، نہ اس کی اخلاقیات پر ہندوئوں کا عمل رہ گیا ہے۔ ہندوازم کی سماجیات باقی رہ گئی تھی مگر جدید مغربی تہذیب اسے بھی تیزی کے ساتھ فنا کے گھاٹ اُتار رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندو صرف نام کے ہندو رہ گئے ہیں، وہ ہولی اور دیوالی کے تہوار منالیتے ہیں لیکن بالکل اسی طرح جس طرح عیسائی کرسمس مناتے ہیں۔ ہندو رام کو پوجتے ہیں اور رام کی بیوی سیتا کو اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں مگر نہ ہندوئوں پر رام کی سیرت کا کوئی اثر ہے۔ نہ ہندو عورتوں میں کسی کی سیرت پر سیتا کی سیرت اثر انداز ہے۔ فی زمانہ ہندوئوں کو ہندوازم زیادہ شدت سے اس وقت یاد آتا ہے جب انہیں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ اسلام مسلمانوں اور پاکستان کی نفرت ہندوئوں کو احساس دلاتی ہے کہ ان کا بھی ایک ’’دھرم‘‘ یا مذہب ہے۔ ان کی بھی ایک ’’تاریخ‘‘ ہے، ان کی بھی ایک ’’تہذیب‘‘ ہے۔
مغربی تہذیب کے حوالے سے مسلم ملکوں اور مسلم معاشروں میں ایک نیا تجربہ خلق ہوا ہے۔ اسلام ایک دائمی حقیقت ہے۔ اسے روئے زمین سے دنیا کی کوئی طاقت فنا نہیں کرسکتی۔ چناں چہ مغربی تہذیب اسلام کو جذب کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی اور نہ کبھی ہوسکتی ہے۔ اسلام کے حوالے سے مسلمان بھی روئے زمین پر ایک مستقل وجود کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغربی تہذیب اور اس کے علمبرداروں نے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا مگر وہ مسلمانوں کی نسل کو ختم نہ کرسکے اور نہ کبھی کرسکتے ہیں۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے مسلم دنیا میں جو تجربہ خلق کیا ہے اس کی نوعیت کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ایک فقرے میں دیا جائے تو وہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے مسلم دنیا کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کو دونیم یا دو ٹکڑے کردیا ہے۔ اس حقیقت کو غالب نے اس طرح بیان کیا ہے۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
اس کے معنی یہ ہیں کہ مغربی تہذیب کی مداخلت سے پہلے اسلامی تہذیب ایک وحدت تھی۔ اس کا مفہو یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی صرف ایک اصول کے تابع تھی۔ لیکن مغربی تہذیب نے اس زندگی کو ایک کے بجائے دو اصولوں کے تابع کردیا۔ اسلام کے تصورِ حیات میں دین اور دنیا ایک وحدت تھے۔ اس لیے کہ دنیا دین کے تابع تھی۔ لیکن جدید مغربی تہذیب نے مسلم معاشروں میں دین اور دنیا کی دوئی کا تصور متعارف کرادیا۔ بلاشبہ دنیا کا تصور مغربی تہذیب کی ایجاد نہیں تھا۔ دنیا کا تصور ہمیشہ سے موجود تھا مگر روایتی معاشرے میں دنیا پرستی کا مفہوم دین سے انحراف تھا۔ سوال یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے اس سلسلے میں نیا کام کیا کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے دنیا کو دین کی متوازی حقیقت بنا کر کھڑا کردیا۔ اس دائرے میں دین اور دنیا کا تعلق منقطع ہوگیا۔ اب دین کے اپنے اصول تھے اور دنیا کے اپنے ضابطے تھے۔
اس تصور کے تحت مذہب لوگوں کا انفرادی معاملہ قرار پایا اور حکومت و ریاست کا دین سے اور دین کا حکومت و ریاست سے کوئی تعلق باقی نہ رہا۔ مغربی تہذیب نے انفرادی اور اجتماعی شخصیت کے دونیم ہونے کے اس تجربے یا Split Personality Case کو زندگی کے ہر دائرے میں عام کرنے کے لیے مسلمانوں کی الٰہیات یا Ontology کے مقابلے پر اپنی الٰہیات یا Ontology لاکھڑی کی۔ مسلمانوں کے تصورِ علم یا Epistemology کے مقابلے پر اپنا تصورِ علم یا Epistemology کو فروغ دیا۔ اس صورتحال کا اثر ادب پر بھی پڑا۔ ہمارا روایتی ادب حقیقت اور مجاز کی اصطلاحوں میں کلام کرتا تھا۔ اس تصور کے دائرے میں ہر حقیقت کا ایک مجاز تھا اور ہر مجاز کی ایک حقیقت تھی اور بڑا ادب وہ تھا جو بیک وقت حقیقت اور مجاز کے بیان پر قادر ہو۔ لیکن مغربی تہذیب کے زیر اثر مجاز ہی حقیقت بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے اگلے مرحلے میں حقیقت کا تصور مزید محدود ہو گیا۔ کہا جانے لگا کہ حقیقت سے مراد نفسیاتی یا جذباتی حقیقت ہے۔ ترقی پسندوں نے اور بھی غضب کیا۔ انہوں نے کہہ دیا کہ حقیقت کا مفہوم معاشی حقیقت کے سوا کچھ نہیں۔ چناں چہ ترقی پسند ادب معاشی حقیقت کا ترجمان یا عکاس بن کر کھڑا ہوگیا۔ اس طرح ادب کی جمالیات الاماشااللہ بدصورتی، بدہیتی یا Distortion کی جمالیات بن کر رہ گئی۔ اس صورت حال کی مزاحمت کی ضرورت تھی لیکن مزاحمت کے لیے شعور ضروری ہوتا ہے۔ جدید اردو ادب کے دائرے میں محمد حسن عسکری اور سلیم احمد کے سوا کسی کو صورت حال کا ادراک نہ تھا۔ باقی لوگوں کے لیے ’’نئے پن‘‘ نے بجائے خود ’’الہام‘‘ کا درجہ حاصل کرلیا تھا۔
ہماری انفرادی اور اجتماعی شخصیت کے دونیم ہوجانے کے عمل کا سب سے ہولناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہماری تحقیقی صلاحیتیں یا تو کُند ہوگئیں یا پھر سطحیت اور چھوٹے معنوں کی عادی ہوگئیں۔ بڑے تخلیقی کارناموں کے لیے وجود کی کلیت کا شعور اور احساس ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ چیزیں اس وقت فراہم ہوسکتی ہیں جب ہماری انفرادی اور اجتماعی شخصیت ایک اصول کے تابع ہو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو غیر مغربی یا ڈی ویسٹرنائز ہونے کا مفہوم اپنی انفرادی اور اجتماعی شخصیت کو ایک اصول کے تابع کرتے چلے جانا اور دوئی یا Duality کے تجربے سے خود کو پاک کرتے چلے جانا ہے۔ اس کا طریقہ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمیں کیا حاصل ہوسکتا ہے اس کے بارے میں اقبال نے بنیادی بات کہہ دی ہے۔ اقبال نے کہا ہے۔
کی محمدؐ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا ہے لوح و قلم تیرے ہیں