مودی کے انجام کا آغاز؟

793

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک میں حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کو شکست ہوئی ہے اور کانگریس پارٹی نے میدان مار لیا ہے۔ کرناٹک کی ریاستی اسمبلی کے یہ انتخابی نتائج اس لحاظ سے اہم ہیں کہ یہ جنوبی بھارت کی وہ واحد ریاست تھی جہاں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت قائم تھی اور یہ کہ ریاستی اسمبلی کے ان انتخابات کے بعد اگلے برس بھارت میں عام انتخابات ہورہے ہیں۔ اگلے انتخابات کے بعد کانگریس اپنی مردہ سیاست کے تن میں جان ڈالنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ راہول گاندھی نے ملک گیر بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے اپنی جماعت کی بحالی اور گری ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی ایک کوشش کی ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی تیرہ فی صد ہے۔ کانگریس نے ایک بار پھر مسلمان ووٹر کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی ہے جس مسلمان ووٹر کو بھارتیا جنتا پارٹی نے یا تو دھتکار دیا تھا یا اسے قطعی طور پر انتخابی مسلمان ووٹر کے تن ِ مردہ میں بھی ایک جان سی پڑ گئی اوران انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر نو مسلمان امیدوار کامیاب ہوگئے۔ بی جے پی نے مسلمانوں کو سیاسی منظر سے لاتعلق کر دیا تھا۔ بی جے پی کی اس پالیسی کے باعث بھارت کا مسلمان ووٹر خود کو بے اثر اور تنہا سمجھنے لگا تھا۔ مسلمان ووٹر کی اس کمی کو دور کرنے کے لیے بھارتیا جنتا پارٹی نے ہندوتوا کا نفرت کارڈ پوری قوت سے کھیلا تھا۔ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف نفرت کی لہر اُٹھا کر ہندوئوں کے جذبات کے دھارے کو اپنی جانب موڑا تھا۔ بی جے پی نے حجاب، ٹیپو سلطان، لو جہاد اور نجانے کون سے موضوعات کو انتخابی ایشو بنا کر ہندوتوا لہر اُٹھانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔
ان انتخابات میں مودی کی شعلہ بیانی بھی ووٹر کو دل نہ لبھا سکی۔ کرناٹک کی جیت کے بعد جنوب میں کانگریس کی ریاستی حکومتوں کی تعداد سات ہوگئی۔ کرناٹک وہ واحد جنوبی ریاست تھی جہاں بی جے پی کی حکومت تھی اور اب یہ جماعت اس آخری مورچے سے بھی محروم ہو گئی۔ کانگریس نام کی حد تک ہی سیکولرازم کی علمبردار تھی بھارتیا جنتا پارٹی کے ہاتھو ں چاروں شانے چِت ہو کر مضمحل اور درماندہ حال ہو کر رہ گئی تھی۔ مودی کی پالیسیوں نے مغرب میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی تھیں اور مغرب کے حلقوں میں یہ سوال اُٹھائے جانے لگے تھے کہ کیا نریندر مودی کی حکومت بھارت میں ایک فاشسٹ راج پر منتج ہوگی۔ اس دور میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا تھا اس نے بھارت میں معاشرتی تقسیم کی لکیروں کو بھی گہرا کر دیا تھا۔ اسی لیے مغرب میں نریندر مودی کی پالیسیوں کو محتاط انداز سے ہدف تنقید بنایا جا رہا تھا۔ کانگریس کی واپسی کے لیے بھی مغربی میڈیا میں ایک نرم گوشہ محسوس کیا جانے لگا تھا۔ چھے کروڑ آبادی کی ریاست کرناٹک میں ہندوتوا اور نفرت اور انتہا پسندی کے نعروں کے باجود بھارتیا جنتا پارٹی کو شکست ہوئی اور یوں یہ بی جے پی کے ہاتھ سے ہندوتوا کارڈ کے گرنے کے مترادف ہے اس کے باوجود یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ بی جے پی کا ہندوتوا اور ہندو راشٹریہ کارڈ عام انتخابات میں کلی طور پر غیر موثر اور متروک ہوجائے گا۔
جنوبی بھارت میں یوں بھی بھارتیا جنتا پارٹی کا اثر زیادہ نہیں تھا صرف کرناٹک ہی وہ واحد ریاست تھی جہاں اس کا اقتدار قائم تھا۔ اب جنوبی بھارت کے لوگوں نے بی جے پی کے نفرت کارڈ کو مسترد کیا مگر باقی ملک میں بھی اس کی پیروی ہوگی اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کانگریس اپنے جواں سال گاندھی چہروں راہول گاندھی اور پریانیکا گاندھی کے ذریعے اپنی بحالی کی سرتوڑ اور فیصلہ کن کوششوں میں مصروف ہے اور مغرب میں ان کی بات اب کسی حد تک سنی جا رہی ہے۔ مغرب اب انہیں متبادل کے طور پر دیکھنے لگا ہے مگر بھارتی ووٹر کا دل پسیجتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے۔ مغربی میڈیا میں کانگریس کے لیے ہمدردی کے جذبات واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ مودی نے ان انتخابات میں مسلمان مخالف کارڈ کھیلنے کی بھرپور کوشش کی اور دیوتا ہنومان کا نعرہ لگانے کے ساتھ ساتھ مسلمان مخالف فلم کیرالہ اسٹوری کی تعریف کی۔ اس فلم میں مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ ہندو لڑکیوں کو اپنے دام ِ محبت میں پھنسا کر اسلام قبول کراتے ہیں۔ اس کامیابی کے بعد راہول گاندھی نے دہلی میں کہا ہے کہ نفرت کا بازار بند کر دیا گیا ہے۔ کانگریس نے مسلمان ووٹر کو دوبارہ مجتمع کرکے انتہا پسندی کی لہر کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں بھی کانگریس اپنی اس حکمت عملی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گی مگر یہ پالیسی ان علاقوں میں ردعمل کو بھی جنم دے سکتی ہے جو بی جے پی کے گڑھ ہیں اور جہاں بی جے پی ایک مسلمان مائنڈ سیٹ پیدا کر چکی ہے۔ یہاں کانگریس پر مسلمان دوستی کا ٹھپا اس کے گلے بھی پڑ سکتا ہے۔
بھارت کا مجموعی سیاسی مزاج اب مودی کی پیدا کردہ مسلمان دشمنی سے فوری مسلمان دوستی پر ٹیون ہونا اب آسان نہیں رہا۔ اگر یہ شکست نریندر مودی کے انجام کا آغاز بنتی ہے تو کانگریس کے آنے کے بعد بھارت کی کشمیر پالیسی کیا رہتی ہے ہمارے لیے یہ سوال اہم ہے۔ اس وقت بھارت کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی اور بریک تھرو کی توقع نہیں مگر ساری توجہ اس بات پر ہے کہ بھارت کی کوئی حکومت کشمیر پر مارے جانے والے شب خوں کا ازالہ کرتی ہے یا نہیں۔ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی راہول گاندھی سے کچھ امیدیں لگائے بیٹھے ہیں اسی لیے انہوں نے راہول کی بھارت جوڑو یاترا میں کشمیر پہنچنے پر ان کا استقبال کیا تھا۔ کشمیر پر بھارت کی پالیسی کو قریب سے دیکھنے والے تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی کے زوال کا عمل پھیلنے بڑھنے اور تکمیل تک پہنچنے کے باوجود بھارت کی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کا امکان نہیں کیونکہ بھارت پر باہر سے کوئی دبائو ہی نہیں۔ صرف کشمیری عوام بھارت کے اس فیصلے کے خلاف کھڑے ہیں اور وہ اس موقف میں تنہا ہیں۔