پاکستان کے سب سے بڑے سیاستدان

1607

پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے چیئرمین تحریک پاکستان عمران خان کی جانب سے اعلیٰ فوجی افسر میجر جنرل فیصل نصیر پر الزامات کو انتہائی غیر ذمے دارانہ اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے بغیر کسی ثبوت ایک حاضر فوجی افسر پر انتہائی غیر ذمے دارانہ الزامات عائد کیے ہیں۔ من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزامات انتہائی افسوسناک، قابل مذمت اور ناقابل قبول ہیں۔ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں عمران خان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ قانونی راستے کا سہارا لیں۔ ادھر عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف کے ایک مذمتی بیان پر ان سے چار سوالات پوچھ لیے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کے شہری کی حیثیت سے مجھے یہ حق حاصل ہے کہ میں ان لوگوں کو مقدمے میں نامزد کروں جو میرے خیال میں مجھ پر قاتلانہ حملے میں ملوث ہیں؟ عمران خان نے شہباز شریف سے دوسرا سوال یہ پوچھا کہ کیا فوجی افسران قانون سے بالاتر ہیں اور وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرسکتے۔ عمران خان نے سوال اٹھایا کہ اگر کسی فوجی افسر پر الزام لگایا جائے تو اس سے فوج کا ادارہ کیسے بدنام ہوتا ہے؟ عمران خان نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ اتنا طاقت ور کون تھا جو پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے موجود ہونے کے باوجود وزیرآباد جی آئی ٹی کو سبوتاژ کرسکتا تھا؟
پاکستان میں عام خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم سیاسی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی کے منظم ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے مگر پاکستان کی سب سے منظم سیاسی جماعت جماعت اسلامی نہیں فوج ہے۔ جماعت اسلامی بلاشبہ منظم ہے مگر اس کے پاس کوئی عسکری طاقت نہیں۔ اس کے پاس نہ بری فوج ہے، نہ بحریہ، اس کے پاس فضائیہ ہے نہ خفیہ ادارے، اس کے برعکس فوج منظم بھی ہے اور طاقت ور بھی۔ اس کے پاس بری فوج ہے، بحری فوج ہے، فضائی فوج ہے، فوج کی قوت کا یہ عالم ہے کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت ہوتی ہے تو بھی فوج کی حکومت ہوتی ہے، میاں نواز شریف برسراقتدار ہوتے ہیں تو بھی فوج کا حکم چل رہا ہوتا ہے۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم ہوتے ہیں تو بھی خارجہ اور داخلہ پالیسی فوج کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ملک کی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس میں فوج کے لوگ موجود نہ ہوں۔ اس کے نتیجے میں فوج میرتقی میر کے اس شعر کے مصداق ہوگئی ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
عام خیال یہ ہے کہ عمران خان ملک کے سب سے بڑے سیاست دان ہیں۔ بعض لوگ اس کے مقابلے پر میاں نواز شریف کو بڑا سیاستدان سمجھتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو سے بڑا سیاستدان پیدا نہیں کیا۔ مگر یہ ساری باتیں غلط ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے سیاست دان پاکستان کے جرنیل ہیں، ہمارے جرنیل سیاست دانوں کی طرح نیوز کانفرنس کرتے ہیں، ہمارے جرنیل سیاست دانوں کی طرح بیانات دیتے ہیں۔ ہمارے جرنیل سیاست دانوں کی طرح پریس ریلیز جاری کرتے ہیں۔ ہمارے جرنیل سیاست دانوں کی طرح وعدے کرتے ہیں۔ ہمارے جرنیل سیاست دانوں کی طرح نعرے لگاتے ہیں۔ جرنیل انتخابات میں حصہ لیے بغیر انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جرنیل سیاست دانوں سے بڑھ کر امریکا کے قریب ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے جرنیل سیاست دانوں سے زیادہ بڑے سیاست دان ہیں۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ ندیم انجم نے نیوز کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ امریکی سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ہے۔ اس کا اثر پوری دنیا پر ہے۔ وہ درجنوں ملکوں میں حکومتیں گراتی اور بناتی ہے۔ مگر ہم نے آج تک سی آئی اے کے کسی سربراہ کو نیوز کانفرنس کرتے نہیں دیکھا۔ کے جی بی بھی سی آئی اے کے بعد دنیا کی دوسری بڑی خفیہ ایجنسی تھی۔ آدھی دنیا پر اس کا اثر تھا۔ مگر لوگوں کو کے جی بی کے سربراہ کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ موساد اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ہے۔ وہ پورے مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرتی ہے، وہ ایران جیسے بند معاشروں میں گھس کر ایران کے ایٹمی سائنس دان کو مار دیتی ہے مگر ہمیں موساد کے سربراہ کا نام بھی معلوم نہیں۔ را بھارت کی خفیہ ایجنسی ہے، را کا اثر پورے خطے پر ہے، مگر ہم نے آج تک را کے کسی سربراہ کو نیوز کانفرنس کرتے اور پریس ریلیز جاری کرتے نہیں دیکھا۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے جرنیلوں میں خودنمائی کا جذبہ سیاست دانوں سے بھی زیادہ ہے۔ وہ آئے دن خبروں میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹاک شوز میں زیر بحث آنا چاہتے ہیں۔ وہ ٹی وی کی اسکرین پر جلوہ گر ہونے کے خواہش مند رہتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے کسی ثبوت کے بغیر ایک حاضر سروس جرنیل پر الزامات لگائے ہیں۔ انسان نے خدا کو نہیں دیکھا مگر اس کے باوجود اس کی نشانیوں سے اسے پہچانا ہے۔ جرنیلوں کیا سوچ رہے ہیں کیا کررہے ہیں اس کا ثبوت کس کے پاس ہوسکتا ہے مگر جرنیلوں کے اقدامات ان کے اثرات اور نتائج سے سب جان جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ جرنیلوں کا کیا دھرا ہے۔ امریکا دنیا میں درجنوں حکمرانوں اور حکومتوں کو گرا چکا ہے مگر اس کا ثبوت کسی کے پاس نہیں۔ اس کا وجود ساری دنیا مانتی ہے کہ امریکا دنیا میں حکومتیں گراتا بھی ہے بناتا بھی ہے۔ امریکا نے پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر کے درمیان این آر او کرایا۔ یہ بات کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ہر باخبر شخص کو معلوم تھی۔ پھر اتفاق سے امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس نے اپنی خودنوشت میں خود اس بات کا انکشاف کردیا کہ انہوں نے جنرل پرویز اور بے نظیر کے درمیان معاہدہ کرایا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے ذمے دار جنرل پرویز مشرف ہوں گے۔ پاکستان کے جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کا بیان یہ تھا کہ 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگیں بھارت نے پاکستان پر مسلط کیں اس کے برعکس ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان کسی ثبوت کے بغیر ساری زندگی کہتے رہے کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگیں پاکستان نے شروع کیں۔ ویسے پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو جرنیلوں کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کی کوئی کمی نہیں۔ جنرل ایوب نے کسی جواز کے بغیر ملک پر پہلا مارشل لا لگایا۔ انہوں نے آئین کو معطل کیا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا۔ ملک کے نظریے سے غداری کرتے ہوئے ملک پر سیکولرازم کو مسلط کیا۔ سوال یہ ہے کہ ان جرائم کے باوجود فوج کے ادارے نے اپنے سربراہ کے خلاف کیا کیا؟ بنگالی ملک کی آبادی کا 56 فی صد تھے۔ چناں چہ انہیں فوج جیسے اہم ادارے میں بھی 56 فی صد ہونا چاہیے تھا مگر پاکستان کے جرنیلوں نے 1947ء سے 1960ء تک ایک بنگالی کو بھی فوج میں نہ آنے دیا 1960کے بعد بنگالی فوج میں آئے تو 1971ء تک فوج میں ان کی موجودگی بمشکل 8 سے 10 فی صد تھی۔ یہ صورت حال ایک قومی جرم تھا اور جرنیل اس کے ذمے دار تھے۔ سوال یہ ہے کہ ناقابل تردید ثبوت موجود ہونے کے باوجود فوج نے جرنیلوں کے خلاف کتنے مقدمے دائر کیے۔ ان کے کتنے کورٹ مارشل ہوئے۔ 1971ء کے قومی بحران میں جنرل نیازی نے فرمایا کہ ہم بنگالی عورتوں کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ یہ بیان قوم کے 56 فی صد حصے کی کھلی توہین تھا۔ یہ اس حصے کے خلاف نفرت کا ٹھوس اظہار تھا۔ اس اظہار کی کوئی اخلاقی، تہذیبی، تاریخی اور سیاسی بنیاد نہ تھی۔ سوال یہ ہے کہ فوج کے ادارے نے ٹھوس شہادت موجود ہونے کے باوجود جنرل نیازی کے خلاف کیا اقدامات کیے؟ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کرلی تھی۔ جمہوریت کا اصول اکثریت ہے۔ چناں چہ اقتدار شیخ مجیب الرحمن کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا مگر جنرل یحییٰ نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے برعکس انہوں نے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ یہ ایک بھیانک فوجی جرم تھا۔ سوال یہ ہے کہ فوج کے ادارے نے اس بھیانک جرم کے حوالے سے جنرل یحییٰ کے خلاف کیا کیا؟ جنرل یحییٰ کی قیادت میں ہم نے 1971ء کی جنگ لڑی اور ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ جسٹس حمود الرحمن کمیشن نے جنرل یحییٰ (ر) اور دیگر کئی جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی مگر فوج نے ٹھوس شواہد کے باوجود جرنیلوں کا کورٹ مارشل نہ کیا۔
جنرل ضیا نے 1977ء میں سول حکومت کے خلاف سازش کی۔ انہوں نے آئین کو معطل کیا۔ بھٹو کو ایسے مقدمے میں پھانسی کی سزا دی جو سرے سے مقدمہ ہی نہیں تھا۔ مگر فوج کے ادارے نے جنرل ضیا الحق کے خلاف کچھ بھی نہ کیا۔ جنرل ضیا نے خود اعلان کیا تھا کہ وہ 90 دن میں انتخابات کرائیں گے مگر انہوں نے 90 ماہ میں بھی انتخابات نہ کرائے۔ مگر جنرل ضیا الحق کا کچھ نہ بگاڑا جاسکا۔ جنرل مشرف نے نواز شریف کو اقتدار سے باہر کیا۔ یہ عوام کی بالادستی کے تصور کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ مگر جنرل پرویز کا بھی احتساب نہ ہوسکا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے جرنیل قانون سے بالاتر ہیں۔ وہ ملک و قوم پر بھی فوقیت رکھتے ہیں، پاکستان کو نہ آئین چلا رہا ہے نہ قانون چلا رہا ہے نہ عدالت چلا رہی ہے نہ سیاست دان چلا رہے ہیں پاکستان کو صرف جرنیل چلارہے ہیں۔