پاکستانی جرنیلوں کا تصورِ بھارت اور ان کا کورٹ مارشل

1007

امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہے۔ وہ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادے تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وہ افغانستان میں ڈیڑھ دو لاکھ افراد کو قتل کردے تو کسی کو اس سے سوال کرنے کی جرأت نہیں ہوسکتی۔ وہ ابوغریب جیل کا تجربہ خلق کر ڈالے تو اس کی حرمت پر آنچ نہیں آتی۔ وہ گوانتانامو بے جیسا جہنم تخلیق کردے تو کوئی اس سے انسانی حقوق کی پامالی پر احتجاج نہیں کرسکتا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی جرنیل پاکستان کی واحد سپر پاور ہیں۔ ان کا نہ کوئی خدا ہے، نہ کوئی رسول ہے۔ ان کی نہ کوئی کتاب ہے، نہ کوئی آئین ہے۔ ان کی نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی قوم ہے۔ وہ اسلامی جمہوریت پاکستان میں سیکولر ازم کو ننگا ناچ نچائیں تو ان سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو لبرل ازم کی رقص گاہ بنادیں تو ان سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے غلط کیا ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں آئین کو پامال کردیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں بھٹو، نواز شریف، الطاف حسین اور عمران خان ایجاد کرلیتے ہیں۔ جنرل میک آرتھر دوسری عالمی جنگ میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی ہیرو تھا۔ اس نے وسیع علاقے پر قبضہ کیا تھا اور عالمی جنگ میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ عام خیال یہ تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا کا صدارتی انتخاب لڑے گا اور بہت آسانی سے امریکا کا صدر بن جائے گا۔ مگر جنرل میک آرتھر نے جنگ کے دوران صرف ایک سیاسی بیان دے دیا۔ امریکا کی سیاسی قیادت نے جنرل میک آرتھر سے کہا تھا کہ وہ مخصوص علاقوں میں فوج کی پیش قدمی روک دے۔ جنرل میک آرتھر نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکا کی سیاسی قیادت کے احکامات سے اختلاف کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل میک آرتھر کو چوبیس گھنٹے میں واپس بلالیا گیا اور جنرل میک آرتھر کا پورا فوجی اور ممکنہ سیاسی کیریئر ختم ہوکر رہ گیا۔ بھارت کی فوج پاکستان
کی فوج سے کئی گنا بڑی ہے مگر آج تک بھارت کے کسی جرنیل کو ملک میں مارشل لا لگانے کی جرأت نہیں ہوئی۔ مارشل لا تو بڑی بات ہے۔ کسی بھارتی جرنیل کو آج تک کوئی سیاسی بیان دینے کی بھی جرأت نہیں ہوئی مگر پاکستانی جرنیل کچھ بھی کرلیں ان کا کبھی احتساب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی جرنیل ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں۔ چند روز پیش تر ملک کے معروف صحافی حامد میر نے نسیم زہرا کے ایک پروگرام میں جنرل باجوہ کے حوالے سے کئی انکشافات کیے ہیں۔ کاش حامد میر نے یہ انکشافات جنرل باجوہ کے آرمی چیف ہوتے ہوئے کیے ہوتے لیکن موجودہ حالات میں بھی یہ انکشافات کئی حوالوں سے اہم ہیں۔ حامد میر نے کیا کہا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’نسیم زہرا: کشمیر پر کیا کررہے ہیں؟
حامد میر: کشمیر پر میں صرف دعا کرسکتا ہوں۔ اس لیے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشمیر پر جو سودا کیا اس کی Details ابھی قوم کے سامنے نہیں آئیں۔ میں نے کیا لفظ استعمال کیا۔ ’’سودا‘‘۔ سیز فائر کے فوراً بعد مودی نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ جب foreign office کو یہ پتا چلا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ پتا چلا کہ مودی پاکستان آرہا ہے اور مجھے تو پتا ہی نہیں ہے تو وہ بھاگے بھاگے عمران خان کے پاس گئے ان سے پوچھا کہ آپ کو پتا ہے؟ عمران خان نے کہا وہ مجھے بتایا تھا باجوہ صاحب اور فیض صاحب آئے تھے۔ کوئی بات چیت چل رہی ہے ان کی اجیت ڈوول کے ساتھ لیکن وہ آرہا ہے یہ مجھے نہیں پتا۔ پھر عمران خان نے فیض صاحب سے کہا کہ آپ foreign office کو تو آن بورڈ لیں۔ تو اس کے بعد باجوہ صاحب فارن آفس آگئے اپنا پورا لائو لشکر لے کے (یہ وہی لیکچر تھا جو ایک دفعہ انہوں نے مجھے اور آپ کو بھی دیا تھا) کہ ٹینک چلنے کے قابل نہیں ہیں، ٹروپس کی موومنٹ کے لیے میرے پاس ڈیزل نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں تھیں۔
نسیم زہرا: Normally ایسے آرمی چیف کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے؟۔ مجھے اب کہنا پڑے گا میں اندر کمرے میں کہتی رہی ہوں کہ اس طرح نہیں ہوتا۔
حامد میر: بیس، پچیس صحافیوں کو آپ سامنے بٹھا کے، آپ ان کو بتارہے ہیں کہ پاکستان آرمی لڑنے کے قابل نہیں ہے۔
نسیم زہرا: اس کا مطلب ہے کہ آپ 25 صحافیوں تک یہ بات نہیں رہتی in the world۔
حامد میر: جبکہ اُس وقت بھی ہمیں یقین تھا کہ یہ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہ آڈیٹوریم کی بات ہے۔ جہاں کور کمانڈرز کانفرنس ہوتی ہے۔ وہاں بیٹھ کر ہمیں کہانی سنا رہا ہے کہ فوج انڈیا سے لڑنے کے قابل نہیں ہے لہٰذا ہم صلح کرلیں۔
اب ہمارا جو Foreign Office تھا اس کو انہوں نے وہی لیکچر دیا جو آپ کو اور مجھے دیا تھا تو Foreign Office نے انہیں Confront کیا۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے کمال یہ کیا کہ انہوں نے صرف اپنے Foreign office سیکرٹری کو نہیں بٹھایا ہوا تھا۔ انہوں نے پانچ چھے ایکس سیکرٹریز کو بھی بٹھا لیا اور ان سب نے کہا کہ یہ انڈیا کا ٹریپ ہے اور آپ جو باتیں کررہے ہیں وہ پاکستان کے روایتی موقف کے خلاف ہے اور یہ ہمارے نیشنل انٹرسٹ سے میچ نہیں کرتا۔ باجوہ صاحب بہت غصے میں آگئے۔ انہوں نے کہا مودی کو اپریل میں دورہ کرنا ہے پاکستان کا یہ کون سا اپریل ہے، اپریل 2021۔
نسیم زہرا: یہ ہضم کرچکے ہیں کشمیر اور پھر بھی۔
حامد میر: جی 5 اگست 2019ء ہوچکا ہے اور باجوہ صاحب نے جنرل فیض اور اجیت ڈوول کے ذریعے مودی کے دورئہ پاکستان کی Date بھی فکس کی ہوئی ہے۔ تو عمران خان صاحب کے ساتھ ان کے بہت سے معاملات میں اختلافات تھے تو اس معاملے میں بھی۔
ان (جنرل باجوہ) کا خیال تھا کہ یار یہ تو بڑی زیادتی کی ہے میرے ساتھ۔ میں نے تو nobel peace prize لینا تھا۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرکے۔
نسیم زہرا: جنرل باجوہ نے
حامد میر: جی۔ اور ایک اور ایکسٹیشن بھی لینی تھی۔ اب بھلے شاہ محمود قریشی صاحب اس پر بات نہ کریں یا عمران خان صاحب بھی بات نہ کریں… میں نے شاہ محمود قریشی صاحب سے یہ باتیں پوچھیں تو انہوں نے کنفرم بھی کیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ چیئرمین جب تک مجھے اجازت نہیں دے گا تو میں اس پر نہیں بول سکتا کیونکہ یہ اسٹیٹ سیکرٹ کے زمرے میں آتی ہے‘‘۔
آپ نے حامد میر اور نسیم زہرا کی اس گفتگو میں جنرل باجوہ کی غداری کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائی۔ وہ ایک جانب صحافیوں کے ذریعے پوری دنیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ پاکستانی فوج بھارت سے جنگ لڑنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ اس کے ٹینک چلنے کے قابل نہیں، اس کی فوج کے پاس آمدو رفت کے لیے تیل کے پیسے بھی نہیں ہیں، چناں چہ بھارت کے آگے ہتھیار ڈال دینا ہی مسئلے کا بہترین حل ہے۔ پاکستانی جرنیلوں کی تاریخ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہیں اور اپنی قوم پر ہتھیار تانتے ہیں۔ ہمارے جرنیلوں نے 1971ء میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے، اس سے بہت پہلے جنرل ایوب امریکی کیمپ کا حصہ بن کر امریکا کے آگے ہتھیار ڈال چکے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ افغانستان کے حکمرانوں حامد کرزئی اور اشرف غنی نے بار بار پاکستان کو دھمکیاں دیں مگر پاکستانی جرنیل ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ایک بار ایران کے جنرل سلیمانی نے بھی پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی دی تھی مگر پاکستانی جرنیل خاموش رہے۔ البتہ پاکستانی جرنیلوں نے بنگالی اکثریت کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے بلوچستان میں پانچ فوجی آپریشن کیے۔ انہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ میں طاقت کا استعمال کیا۔ کراچی میں فوجی آپریشن نے ایم کیو ایم کو ظالم سے مظلوم بنا کر کھڑا کردیا۔ البتہ کراچی کے آپریشن کے دوران عام شہریوں کو بڑی خواری کا سامنا کرنا پڑا۔ سعود آباد میں فوج نے آپریشن کیا تو کئی گلیوں کے تمام مردوں کو سڑکوں پر لا کر بٹھادیا اور ان کی قمیصیں اُتروا کر ان کی آنکھوں پر باندھ دیں۔ ہم ایک رات اپنے اہل خانہ کے ساتھ شادی کی تقریب سے گھر لوٹ رہے تھے کہ ہماری ٹیکسی کو فوجیوں نے روک لیا اور ٹیکسی میں خواتین کی موجودگی کے باوجود بڑی دیر تک ٹیکسی کی تلاشی لیتے رہے۔ اس زمانے میں ہم سگریٹ پیا کرتے تھے اور ایک ماچس ہمارے ہاتھ میں تھی۔ یہ دیکھ کر ایک فوجی ہمارے پاس آیا اور اس نے بے تکا سوال داغا۔ اس نے کہا اس ماچس میں کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ ماچس میں آگ ہے۔ فوجی ہمیں کافی دیر تک گھورتا رہا اور پھر ہمیں جانے کی اجازت مل گئی۔
پاکستانی قوم بھارت کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے اور بھارت نے قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس پوری تاریخ کا ہمارے جرنیلوں کے دل و دماغ پر کوئی اثر ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جرنیلوں کا تصور بھارت پاکستانی قوم کے تصور بھارت سے مختلف ہے۔ یہ پاکستانی جرنیل تھے جنہوں نے بھارتی پنجاب میں خالصتان کی تحریک منظم کی تھی۔ یہ تحریک جاری رہتی تو بھارتی پنجاب کب کا بھارت سے الگ ہوچکا ہوتا، مگر ہمارے جرنیلوں نے خالصتان تحریک کے تمام زیر زمین کارکنوں کی فہرستیں بھارت کے حوالے کردیں۔ اور اس کا الزام پیپلز پارٹی کے وزیر داخلہ چودھری اعتزاز احسن پر لگادیا۔ مگر چودھری اعتزاز احسن نے ایک اخباری انٹرویو میں کہا کہ وہ اتنی بڑی غداری کرکے زندہ تھوڑی رہ سکتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف ایک زمانے میں کارگل کے ’’ہیرو‘‘ تھے مگر پھر یہی جنرل پرویز مشرف روزانہ کی بنیاد پر بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگنے لگا۔ بھارت نے امریکا کے دبائو پر جنرل پرویز کو مذاکرات کی بھیک دی مگر جنرل پرویز کو کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے اصولی موقف سے ہٹادیا۔ اب حامد میر نے جنرل باجوہ کے بارے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرچکا تھا مگر جنرل باجوہ بھارت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کرکے مودی جیسے درندے کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار کررہے تھے اور وہ بھی عمران خان کو اعتماد میں لیے بغیر۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جو جرنیل قوم کے لیے ’’شیر‘‘ بنے ہوئے ہیں وہی جرنیل بھارت کے آگے ’’گیدڑ‘‘ بنے کھڑے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ قائداعظم ملک، فوج اور ایٹم بم نہ ہونے کے باوجود بھارت سے خوف زدہ نہیں تھے اور ایک وقت یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ریاست ہے، دنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے، ایٹم بم ہے، دور مار میزائل ہیں مگر ہمارے جرنیل بھارت سے خوف زدہ ہیں۔
نسیم زہرا نے حامد میر سے گفتگو میں یہ بات کہی ہے کہ جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ سو فی صد درست ہے مگر جرنیلوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے جرنیلوں نے 1971ء کی جنگ میں بزدلی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ چناں چہ 90 ہزار فوجیوں نے بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ حمودالرحمن کمیشن بنا تو اس نے جنرل یحییٰ سمیت کئی جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی، مگر ملک توڑنے والے اور بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے، جرنیلوں کا کبھی کورٹ مارشل نہ ہوسکا۔ چناں چہ ہمیں یقین ہے جنرل باجوہ کا بھی کورٹ مارشل نہیں ہوگا۔ وہ جنرل باجوہ جنہیں سید علی گیلانی نے پرویز مشرف نے زیادہ خطرناک قرار دیا تھا۔