مسلمان اور ماضی

1219

اسلام دشمن اور مسلم بیزار عناصر ہی نہیں سیکولر اور لبرل کہلانے والے لوگ بھی مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کی محبت میں مبتلا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ماضی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ماضی کو مزار بنا لیا ہے اور وہ اس مزار کی پرستش کیے چلے جارہے ہیں۔
زندگی کا عام تجربہ ہے کہ انسان اپنی جوانی کیا بچپن کو بھی ساری زندگی یاد کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھا ہوتا ہے تب بھی وہ گزرے ہوئے دنوں کی یادوں میں کھویا ہوا ہوتا ہے۔ مولانا حالی کی نیک دلی مشہور زمانہ ہے مگر انہوں نے اپنی جوانی کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
گو جوانی میں تھی کجرائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
یعنی جوانی میں ہم ذرا رنگین مزاج یا بھٹکے ہوئے تھے مگر اس کے باوجود ہمیں بڑھاپے میں جوانی رہ رہ کر یاد آئی۔ مگر ماضی کو یاد کرنے کے اس عمل کو کوئی برا نہیں کہتا بلکہ سب سمجھتے ہیں کہ یہ ایک فطری عمل ہے۔ اسی طرح اگر کسی شخص کے پر دادا اور لگڑ دادا بھی اگر امیر، بہادر یا صاحب علم ہوتے ہیں تو وہ بن دیکھے انہیں یاد کرتا ہے۔ ان پر فخر کرتا ہے۔ بتانے والے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر بتاتے ہیں کہ ہمارے پردادا شاعر تھے، لگڑ دادا شکاری تھے اور شیر کا شکار کھیلتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی اہلیت و صلاحیت یا کمال کی وجہ سے کوئی شخص اپنے پردادا، سگڑ دادا اور لگڑ دادا کو یاد کرسکتا ہے یا ان پر فخر کرسکتا ہے تو بیچارے مسلمان اپنے اجتماعی ماضی کو کیوں یاد نہیں کرسکتے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے ماضی سے اس تعلق کی بنیاد کیا ہے؟۔
اس تعلق کی ایک بنیاد یہ ہے کہ مسلمانوں کا ماضی ہے ہی اتنا شاندار کہ اسے یاد کیا جائے۔ رسول اکرمؐ کی نبوت کا زمانہ صرف 23 سال ہے۔ خلافت راشدہ کا دور بھی 23 سال پر محیط ہے۔ ان برسوں کو جمع کیا جائے تو صرف 52 سال بنتے ہیں اور مذاہب کی تاریخ میں 52 سال کچھ بھی نہیں ہوتے مگر اسلام کا پرچم تھام کر مسلمانوں نے صرف 52 سال میں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرلی۔ اسلام کے ظہور اور پھیلائو کی یہ داستان اتنی حیرت انگیز ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں۔ اس سلسلے میں کہنے والوں نے یہ تک کہا ہے کہ اگر اسلام کو ایک اور فاروق اعظم فراہم ہوجاتے تو آج پوری دنیا مسلمان ہوتی، لیکن یہ تو مسلمانوں کی دنیوی فتوحات کا معاملہ ہے۔ مسلمانوں نے روحانیت، تہذیب، اخلاق و کردار اور علم کے میدان میں جو کارنامے انجام دیے وہ دنیوی فتوحات سے کروڑوں گنا بڑے ہیں، دنیا رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ دنیا میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ جیسا کوئی نہیں۔ دنیا بھرپھر کبھی دوسرا فاروق اعظمؓ نہ دیکھ سکی۔ دنیا کے پاس عثمان غنیؓ اور حیدر کرارؓ جیسی کوئی نظیر موجود نہیں۔ مسلمانوں کی تہذیب اور اخلاق کا یہ عالم ہے کہ کروڑوں افراد صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور ہمارے صوفیا اور علما کے کردار و عمل کو دیکھ کر مسلمان ہوئے۔ مسلمانوں کے علم و فضل کا یہ عالم ہے کہ مسلمانوں کے جیسا تفسیری علم کسی امت نے خلق نہیں کیا۔ کسی دوسری امت کے پاس علم حدیث جیسا علم نہیں۔ کسی امت اور کسی ملت کے پاس فقہ کی ویسی روایت نہیں جیسی روایت مسلمانوں کے پاس ہے۔ علم کے دائرے میں مسلمانوں کے کمالات کی یہ صورت ہے کہ امام غزالیؒ کے ایک معاصر نے رسول اکرمؐ کو خواب میں دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ رسول اکرمؐ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ امام غزالیؒ بھی وہاں موجود ہیں اور رسول اکرمؐ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ کی امتوں میں غزالی جیسا کوئی عالم موجود ہے؟ اس سوال کا جواب دونوں جلیل القدر انبیا نے انکار میں دیا۔
مسلمانوں نے شاعری کے میدان میں اتنے بڑے لوگ پیدا کیے کہ مولانا روم کی شاعری کو ترازو کے ایک پلڑے میں اور دوسری امتوں کے سو بڑے شاعروں کی شاعری کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو مولانا کی شاعری کا پلڑا کیفیت اور معنی آفرینی کے اعتبار سے بھاری ہوگا۔ یہی نہیں مسلمانوں نے ریاضی، کیمیا، حیاتیات، فلسفے، طب، فلکیات اور عمرانیات کے دائروں میں ایسے لوگ پیدا کیے جو ان علوم میں کئی سو سال تک پوری دنیا کی امامت کرتے رہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے عہد زوال میں دنیا کی ایک بڑی زبان اردو خلق کی۔ اس زبان نے صرف تین سو سال میں میر، غالب اور اقبال جیسے شاعر پیدا کیے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان اپنے اتنے شاندار ماضی کی جانب کیوں نہ دیکھیں اور اس سے گہرا تعلق کیوں نہ محسوس کرلیں۔
مسلمانوں کے اپنے ماضی سے گہرے تعلق کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا گزرا ہوا یہ کل ماضی ٔ بعید نہیں، ماضی ٔ قریب ہے۔ 19 ویں صدی کے وسط اور 20 ویں صدی کے آغاز تک مسلمانوں کی دو عظیم الشان سلطنتیں اس روئے زمین پر موجود تھیں۔ ہندوستان میں مگل سلطنت 1857ء تک کام کرتی رہی۔ برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممتاز مغربی مورخ ولیم ڈیل ریمپل نے اپنی کتاب ’’دی انارکی‘‘ میں لکھا ہے کہ مغلوں کا ہندوستان اتنا ترقی یافتہ تھا کہ وہ پوری دنیا کی مجموعی پیداوار کا 25 فی صد پیدا کررہا تھا۔ اسی لیے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔ خلافت عثمانیہ کئی براعظموں کا احاطہ کیے ہوئے تھی اور یہ سلطنت 20 ویں صدی کے اوائل تک اپنے جلال و جمال کا کچھ نہ کچھ اظہار کررہی تھی۔ بلاشبہ یہ سلطنتیں خلافت راشدہ کا سایہ بھی نہ تھیں مگر برصغیر میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی تو ان میں کوئی نہ کوئی کمال تو ہوگا۔ اسی طرح سلطنت عثمانیہ نے اپنے دامن میں صدیوں کو سمیٹا ہوا تھا تو اس کے پاس بھی اہلیت و صلاحیت اور کمال کا سرمایہ ضرور ہوگا۔ یہاں کہنے کی اسل بات یہ ہے کہ مشاہدے اور تجربے کی سطح پر مسلمانوں کا ماضی دور کی آواز نہیں سامنے کی چیز ہے۔ تاریخ کے طویل سفر میں دوسو سال کا فاصلہ کل کی بات ہے۔ لیکن ماضی صرف سلطنتوں کی صورت میں خود کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ ماضی عقائد و عبادات، اور اخلاقیات و تہذیب کے سانچوں میں بھی اپنا آپ دکھاتا ہے۔ اس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو مسلمانوں کا ماضی، ماضی نہیں حال ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام عقائد زندہ ہیں اور ان کا تسلسل ہمارے عہد تک برقرار ہے۔ مسلمان جس طرح رسول اکرمؐ کے زمانے میں نماز پڑھ رہے تھے اسی طرح آج بھی پڑھ رہے ہیں۔ وہ جس طرح رسول اکرمؐ کے زمانے میں روزے رکھ رہے تھے اسی طرح آج بھی رکھ رہے ہیں۔ مسلمان جس طرح رسول اکرمؐ کے عہد میں حج کررہے تھے آج بھی اسی طرح حج کررہے ہیں۔ مسلمان جس طرح رسول اکرمؐ کے دور میں زکوٰۃ دے رہے تھے آج بھی اسی طرح سے زکوٰۃ دے رہے ہیں۔ بلاشبہ رسول اکرمؐ اور ہمارے زمانے کے اعمال میں کیفیت اور معنویت کا فرق تو ہے مگر عمل کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس صورت حال نے مسلمانوں کے لیے ان کے ماضی کو ماضی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے حال بنادیا ہے۔ انبیا کی کسی اور امت میں ماضی کا تسلسل اس طرح برقرار نہیں۔ اسی لیے دنیا کی دوسری امتیں ماضی کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت اور معنویت کو نہیں سمجھ سکتیں۔
یہی معاملہ سیکولر اور لبرل کہلانے والے مسلمانوں کا ہے۔ چوں کہ ان کی شخصیت کی جڑیں، اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں نہیں ہیں اس لیے وہ مسلمانوں کے ماضی کے ساتھ تعلق کو نہیں سمجھ سکتے جیسے کبھی کبھی ’’رومانس‘‘ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ معاملہ محض ماضی کے تسلسل تک محدود نہیں۔ مسلمانوں کے ماضی میں ایسی زندگی ہے کہ وہ چودہ سو سال کو پھلانگ کر ہماری زندگی میں در آتا ہے۔ ایک مغربی دانش ور نے ایک بار کہا تھا کہ میں جب مسلم معاشروں میں مسلمانوں کو رسول اکرمؐ کا ذکر کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ ان کے درمیان موجود ہیں۔ ایک نچلی سطح پر یہی معاملہ خلفائے راشدین کا ہے۔ اس کی جہ یہ ہے کہ رسول اکرمؐ اور خلفائے راشدین کے قول و عمل میں ایسی صداقت، ایسا اخلاص، ایسی گہرائی اور ایسی شدت ہے کہ وہ چودہ سو سال کے فاصلے کو بے معنی بناسکتے ہیں۔
مسلمانوں کے اپنے ماضی سے متعلق ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ مسلمانوں کے لیے ان کا ماضی ایک ’’آئینہ‘‘ اور ایک ’’معیار‘‘ ہے۔ مسلمان کسی بھی صورتِ حال سے دوچار ہوں وہ یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں ان کا ماضی ان کی کیا رہنمائی کررہا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ کیا ہے؟ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کا کردار و عمل ہمیں کیا بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کا ماضی ان کے لیے راہ کی رکاوٹ نہیں بلکہ ایک بہت بڑا تحرک یا Motivational قوت ہے۔ مسلمانوں کے لیے ان کے ماضی کا ایک حوالہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ماضی نے انہیں منکسر المزاج بنائے رکھا ہے۔ مسلمان کتنا ہی بڑا عمل کیوں نہ کرلیں انہیں محسوس ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کیا صحابہ کرامؐ کے عمل کے سامنے بھی ان کا عمل کچھ نہیں۔
مسلمانوں کے ماضی سے تعلق کی ایک بنیاد یہ ہے کہ مسلمان دنیا کی واحد امت ہیں جسے اپنے ماضی کی بازیافت پر کامل یقین ہے۔ یہودیت اسلام سے کئی ہزار سال پہلے آئی مگر یہودیت ایک نسلی حقیقت ہے اور یہودیوں کی اکثریت کی عہد موسوی کی بازیافت کا یقین نہیں ہے۔ اسرائیل کو بعض لوگ نظریاتی ریاست کہتے ہیں اور اسے یہودیوں کے ماضی کی بازیافت سے منسلک کرتے ہیں مگر اسرائیل بڑی طاقتوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے اور اسرائیل ایک سیکولر ریاست ہے اور ا کا خاتمہ اس کی تقدیر ہے۔ عیسائی دنیا عیسائیت کو ترک کرچکی اور اس کی عظیم اکثریت حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہیں رکھتی۔ چناں چہ اس کے لیے حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد کا تصور ہی بے معنی ہے۔ ہندو رام رام بہت کرتے ہیں مگر رام ان کے گمشدہ اور کبھی واپس نہ آنے والے ماضی کا کردار ہیں۔ اس روئے زمین پر صرف مسلمان ایسی امت ہیں جو قرآن مجید اور رسول اکرمؐ کی احادیث مبارکہ کی روشنی میں ماضی کی بازیافت پر یقین رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صاف کہا ہے کہ وہ اس زمین پر اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گزرے اور رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ ان حقائق کو سمجھے بغیر مسلمانوں کے ماضی سے ان کے تعلق کو سمجھنا ناممکن ہے۔