اسرائیل کی نئی قرابت داریاں

850

میڈیا رپورٹوں کے مطابق کسی اسرائیلی وزیر خارجہ نے بیس سال میں پہلی دفعہ وسطی ایشیا کے دو مسلمان ممالک آذربائیجان اور ترکمانستان کا دورہ ایک ایسے وقت میںکیا ہے جب چین کی ثالثی کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے دو متحارب اسلامی ممالک سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی معاہدے کے بعد سفارتی تعلقات کی بحالی کے امکانات واضح نظر آ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے سعودی ایران تعلقات کی بحالی کے فوراً بعد ایران کے دو پڑوسی وسط ایشیائی اسلامی کے دورے کے پہلے مرحلے میں گزشتہ دنوں آذربائیجان پہنچنے کے بعد اپنے دورے کے مقصد بیان کرتے ہوئے کہا تھاکہ آذربائیجان ایک مسلم ملک ہے اور اس کی اسٹرٹیجک پوزیشن ہمارے درمیان تعلقات کی اہمیت کو بڑھاتی ہے،کوہن کا باکو میں کہنا تھا کہ اسرائیل اور آذربائیجان کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات سیکورٹی، توانائی، معیشت اور سیاحت پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آذربائیجان اپنے جغرافیائی محل وقوع اور اس حقیقت کی وجہ سے اسرائیل کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے کہ یہ ایک مسلم شیعہ ملک ہے جس نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ کھولا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری دونوں معیشتوں کے درمیان رابطے کی اقتصادی صلاحیت بہت زیادہ ہے اور ہم اپنے عوام کے فائدے کے لیے اسے وسعت دینے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن نے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں صدر الہام علی ایوف سے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات، خطے کے چیلنجوں اور تجارتی تعلقات پر بھی تفصیلی بات چیت کی۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ آذربائیجان پہلا شیعہ اکثریتی ملک ہے جس نے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ کھولا ہے جس کا اسرائیل میں پرجوش خیرمقدم کیا گیا ہے اور اب اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر اسرائیل نے باکو میں اپنا باقاعدہ سفارتخانہ قائم کیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اضافہ خطے میں ایرانی اثر رسوخ کے بارے میں مشترکہ تحفظات کی وجہ سے دیکھنے میں آرہا ہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں یہ بات بھی رپورٹ ہوچکی ہے کہ اسرائیل نے فروری 2012 میں آذربائیجان کو 1.6 ارب ڈالر کا اسلحہ فراہم کیا تھا اور اس کے بعد بھی اسرائیل کئی مرتبہ اسے اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے جس کے بدلے میں آذربائیجان اسرائیل کو تیل فراہم کرتا رہا ہے اور مبینہ طور پر یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح ایک میڈیا رپورٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ آذربائیجان نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو ایران پر نظر رکھنے کے لیے دفتر کھولنے کی اجازت بھی دی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے 2020 میں آرمینیا کے ساتھ تنازع کے دوران آذربائیجان کی مدد کی تھی جب کہ اس کے برعکس ایران پر آرمینیا کی پشت پناہی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
یہ بات یقینا اہمیت کی حامل ہے کہ آزربائیجان کے بعد اسرائیل ایران کے ایک اور ہمسایہ ملک ترکمانستان کے ساتھ بھی اپنی قربتیں بڑھا رہا ہے جس کا ایک ثبوت گزشتہ دنوں آزربائیجان کے بعد ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد جو ایران کی سرحد سے محض 20کلومیٹر کے فاصلے پر ہے میں اسرائیل کے سفارت خانے کا اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے ہاتھوں افتتاح ہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل ترکمانستان کے ساتھ سائبر سیکورٹی، تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت وغیرہ سمیت باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اپنے ترکمان میزبان اور ان کی پوری ٹیم کی طرف سے فراہم کردہ پرتپاک خیرمقدم اور حمایت کی قدر کرتے ہیں اور ہم مستقبل قریب میں اسرائیل میں ان کی شاندار مہمان نوازی کا بدلہ لینے کے منتظر ہیں۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن سابق وزیر خارجہ شمون پریز جنہوں نے 1994 میں ترکمانستان کادورہ کیا تھا کے بعد اسرائیل کے دوسرے وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد نہ صرف ترکمانستان کا دورہ کیا ہے بلکہ انہوں نے اس دورے میں ترکمن وزیر خارجہ راشد میریدوف اور صدر سردار بردی محمدوف سے ملاقات اور دوطرفہ تعلقات کی صورتحال پربھی تبادلہ خیال کیا ہے۔
اس موقع پر ترکمن صدر کا کہنا تھا کہ ترکمانستان اپنی خارجہ پالیسی میں مثبت غیر جانبداری کے اصولوں کے تحت تمام دلچسپی رکھنے والے غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون پر یقین رکھتا ہے۔ ترکمن صدر اور اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس سال 8 اکتوبر کو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 30 ویں سالگرہ منانے پر بھی اتفاق کیا۔ اسرائیلی وزیرخارجہ کے دورہ ترکمانستان کے دوران دونوں ملکوں نے تجارتی اور اقتصادی میدان میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادے کے علاوہ دونوں ممالک کی تیار کردہ مصنوعات کی نمائشوں کے انعقاد اور تکنیکی ترقی میں باہمی شراکت داری کو فروغ دینے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ ترکمانستان زراعت، پانی کی بچت کی ٹیکنالوجی، ڈیجیٹلائزیشن اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں بھی اسرائیل کی کامیابیوں سے نہ صرف وسیع واقفیت میں دلچسپی رکھتا ہے بلکہ وہ ان شعبوں میں اسرائیل سے عملی تعاون کے حصول کا بھی خواہش مند ہے۔ ویسے تو دنیا کے ہر ملک کو کسی بھی ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کا حق ہے لیکن اسرائیل نے سعودی ایران تعلقات کی بحالی کے بعد ایران کے دو قریبی مسلمان پڑوسی ممالک کے ساتھ حالیہ دنوں میں محبت کی جو پینگیں بڑھائی ہیں اس پر ایران کا تشویش میں مبتلا ہونا نہ صرف قابل فہم ہے بلکہ اس حوالے سے یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہوگی کہ آیا ایران اس صورتحال کو کائونٹر کرنے کے لیے آنے والے دنوں میں کیا اقدامات اٹھاتا ہے۔