قید میں عید

632

مولانا ہدایت الرحمن بلوچ کا کیا قصور ہے۔ کیوں انہیں ساڑھے تین ماہ سے جیل میں ڈال رکھا ہے۔ رمضان کے روزے اور اب عید بھی ان کی جیل میں گزرے گی وہ بھی جرم بے گناہی پر جس الزام میں انہیں جیل میں ڈالا گیا ہے اس کے لیے پولیس گواہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ان کی ضمانت کی درخواست ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ خارج کر دی گئی یہ ایک پولیس اہلکار کے قتل کا مقدمہ ہے جسے مبینہ طور پر مظاہروں کے درمیان گولی مار کر قتل کیا گیا۔ مولانا اس سلسلے میں یہ موقف ہے کہ اسے خود پولیس اہلکاروں نے قتل کیا اب مولانا پر مقدمہ بنا کر جیل میں ڈال دیا ہے لیکن عدالت میں کوئی گواہ پیش کرنے سے قاصر ہیں… ضمانت خارج کر دی گئی ہے یہ فیصلہ بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن حکام نے جوڈیشنل حوالات میں قید مولانا سے ملاقات پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ قانون کے خلاف بھی ہے انسانی حقوق کی پامالی بھی ہے۔
آخر مولانا کا قصور کیا ہے؟
کیا یہ ان کا قصور ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کی آواز اٹھا رہے ہیں جبری گمشدگی سے لے کر پینے کا پانی بجلی اور تعلیم اور روزگار کی بات کرتے ہیں کیا یہ ان کا قصور ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ستر سال سے بلوچستان میں ظالم وڈیروں کی چھتری تلے کرپٹ افسران عوام پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ اہل بلوچستان کو بنیادی ضروریات میسر نہیں علاج معالجے کے لیے کوئی سرکاری اسپتال نہیں… معدنیات سے مالا مال بلوچستان کے بچے کے پائوں ننگے ہیں وہ ظلم کا شکار ہے۔ کیا ان کا جرم یہ ہے کہ وہ سمندر میں مچھلی کا غیر قانونی شکار کرنے والے بااثر لوگوں کو لگام ڈالنے کی بات کرتے ہیں جس کی وجہ سے گوادر کی مقامی آبادی کے لیے روزگار کی تباہ کن صورت حال پیدا کر دی ہے اور جس کے باعث ماہی گیر دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہو گئے ہیں۔ کیا ان کے خلاف آواز اٹھانا مولانا کا قصور ہے؟
حکومت بلوچستان کے عوام کے لیے مولانا کی طاقت ور آواز کو گرفتار تو کر سکتی ہے لیکن دبا نہیں سکتی، بلوچستان کے عوام اپنے ساتھ روا رکھے جا نے والے سلوک پر ناراض ہیں۔ مولانا ان کی آواز بن گئے ہیں۔ وہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں بلوچستان جو معدنی وسائل اور سے مالا مال ہے۔ پاکستان میں اب تک دریافت ہونے والی پچاس فی صد معدنیات میں سے چالیس فی صد بلوچستان سے حاصل ہوتی ہیں ماہر ارضیات ضلع چاغی کو ’’معدنیات کا شوکیس‘‘ کہتے ہیں۔ جہاں بڑی تعداد میں معدنیات دریافت ہوئی ہیں۔ ریکوڈک اور سینڈک بھی ضلع چاغی میں واقع ہے جہاں تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ گوادر جس کو سی پیک منصوبے کا جھومر قرار دیا جارہا تھا حال یہ ہے کہ ایسے مالا مال صوبے کے عوام پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں علاج اور تعلیم میسر نہیں۔ حکومت کو عوام کے مسائل کے حل پر توجہ دینا چاہیے۔ نہ کہ ان کے راہ نما کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال کر معاملے کو مزید خراب کریں۔
بلوچستان خاص طور سے گوادر کی جغرافیائی اہمیت کو دنیا جانتی ہے۔ دشمن اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے دماغ لڑا رہے ہیں اور ایک ہماری حکومت ہے جو اپنے عوام کی دشمنی کو اپنی کامیابی گردانتی ہے مولانا ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ عدالت سے جرائم پیشہ اور قاتلوں کو ضمانت مل جاتی ہے۔ میں کیوں کہ غریب مچھیرے کا بیٹا ہوں لہٰذا مجھے الزام لگا کر جیل میں ڈالنا آسان حل لگتا ہے۔ لیکن حکومت کسی غلط فہمی میں نہ رہے میں قید و بند سے خوف کھانے والا نہیں نہ ہی ظالم اور طاقت ور سے معافی مانگنے والا ہوں میں آئین اور ریاست کو مانتا ہوں جو نہیں مانتے وہ آج پہاڑوں پر ہیں جس دن میرا اعتماد آئین قانون اور عدالت سے اٹھ جائے گا میں بھی پہاڑوں پر چلا جائوں گا۔
حکومت کو بلوچستان کے عوام کی اس آواز پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ وہاں کے حالات خراب کرنے میں حکومت اور اشرافیہ کا ہاتھ ہے۔ پر امن جمہوری راہ نمائوں اور کارکنوں کو تشدد اور پولیس گردی کے ذریعے پہاڑوں پر دھکیلنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ اور پشتون عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں اس کے لیے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ حکومت کو انہیں قید کرنے کے بجائے ان کے مطالبات پر توجہ دینا چاہیے۔