سرکڑاہی میں

631

نور جہاں کیا علیل ہوئی سندھ حکومت نے چڑیا گھر ہی بند کرنے کا سوچ لیا۔ بھلا ایسا بھی ممکن ہے کہ گھر کا کوئی فرد شدید بیمار ہو تو گھر ہی کو ختم کرنے کا سوچا جائے۔ سندھ حکومت کی نالائقی کی اس سے بڑی مثال نہیں مل سکتی، پہلے تو چڑیا گھر کو حال سے بے حال کیا وہاں کے جانوروں کی آئے دن اموات کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں، خوراک اور صحت کے معاملے میں انتہائی بے پروائی بلکہ لاپروائی کا معاملہ وہاں کے جانوروں کی حالت زار ہی سے ہوتا ہے، نہ صفائی نہ کہیں کسی قسم کی باغبانی کا خیال۔ جو بھی وہاں تفریح کے لیے بچوں کو لے کر چلا جائے تو مخدوش صورت حال پر پریشان ہی واپس آتا ہے بدبو انتہا کی کہ بچے بڑے پریشان، بے چارے رہے سہے جانور بیمار، لیکن کیا کریں رہنے پر مجبور۔ جرائم پیشہ اور مشکوک لوگوں کی موجودگی سے مزید برا حال ہے، بس اگر کچھ اضافہ ہے تو حنوط کیے ہوئے جانوروں کی تعداد ہی میں نظر آتا ہے۔ بطخوں کا تالاب ہو یا مگرمچھ کا سب ہی کیچڑ اور گندگی سے لبالب بھرا دور دور تک بساند شدید بدبو۔ بے چارے جانور نہ جانے کس جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ان کے لیے فرار کا راستہ موت ہی رہ جاتا ہے۔ لہٰذا آہستہ آہستہ کرکے ان کی تعداد کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ہم نے خود اپنے بچپن میں چڑیا گھر کی خوب سیر کی ہے، وہاں گینڈے، زرافے، شیروں کے جوڑے دیکھے ہیں، لیکن اب وہاں مریل بیمار جانور ہی جیسے تیسے موجود ہیں، حالاں کہ ابتدا میں وہاں آٹھ سو سے زیادہ جانور تھے، اقسام بھی کوئی 80 کے قریب موجود تھیں۔ یہ کراچی کی سب سے پرانی تفریح گاہ ہے، کسی زمانے میں اسے گاندھی گارڈن بھی کہا جاتا تھا۔ ایک زمانے میں یہ ملک کا سب سے بڑا چڑیا گھر تھا، قدیم اتنا کہ اس کے قائم ہونے کی تاریخ 1799ء بتائی جاتی ہے۔ انگریز سرکار نے یہاں پھل اور سبزیوں کے باغات بھی لگائے تھے تا کہ اپنی فوجوں کے لیے تازہ سبزی اور پھل فراہم ہوسکے۔ اس زمانے میں اس کو سرکاری باغ کہا جاتا تھا۔ 1869ء میں اس کا نام تبدیل کرکے ’’کوئن وکٹوریا گارڈن‘‘ کردیا گیا۔ 1934ء میں جب مہاتما گاندھی کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے استقبالیہ دیا۔ اس تقریب میں اس باغ کا نام گاندھی گارڈن رکھ دیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کا نام کراچی چڑیا گھر یا کراچی زو رکھ دیا گیا۔ اب بتائیے کہ کوئی ڈھائی سو سالہ پرانے تاریخی ورثہ کا خاتمہ کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظالمانہ ناانصافی نہیں ہے؟ کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظلم کا معاملہ جس انتہا پر ہے اس کا حال شہریوں سے پوچھیں جن کا گلی محلے میں نکلنا محال ہوگیا ہے، چوک چوراہوں پر چلتے پھرتے ان کے ساتھ ہاتھ ہورہا ہے، ریسٹورنٹ ڈھابہ ہوٹل پر اندھی مچا رکھی ہے، روزہ کھولتے افطار سحری کرتے شہریوں کو دن دھاڑے لوٹ مار کی سان پر رکھا ہوا ہے، یہاں تک سی سی ٹی وی کیمرہ کی بھی پروا نہیں، کیوں کہ ویڈیو موجود ہیں تصاویر سوشل میڈیا پر گھر گھر دیکھی جارہی ہیں لیکن اگر کوئی نہیں دیکھ رہا ہے تو وہ سندھ حکومت اور اس کے کرتا دھرتا پولیس اہلکار ہیں۔ ڈاکو بلاخوف و خطر کراچی کی سڑکوں پر لوٹ مار کررہے ہیں، شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں تو ایک مزدور کو اس لیے گولی مار دی کہ اس کی جیب سے کچھ برآمد نہیں ہوا۔ دوسری لوٹ مار بھکاریوں نے مچائی ہے لیکن سندھ کے حکمران ہر فکر سے آزاد ہیں، بس کراچی کے وسائل کو انجوائے کررہے ہیں یا پھر آئندہ کرتے رہنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ ان کے پاس وہی آسان حل ہے جو انہوں نے کراچی کے چڑیا گھر کے سلسلے میں سوچا ہے۔ حل بھی ایسا کہ جس میں پانچوں گھی میںاور سر کڑاہی میں ہو۔ بس دھیان ہو کہ سر کڑاہی میں ہی نہ رہ جائے۔ چڑیا گھر کی 33 ایکڑ زمین ہے، وہ بھی ایسی جگہ جہاں سوگز زمین کی قیمت ہی کروڑوں میں ہے۔ سو حل آسان، من پسند اور دامن بھر بھی۔ لہٰذا دامن بھرنے کی تیاری ہے، کراچی کے شہریوں کا کیا ہے وہ فی الحال ڈکیتیوں اور بھکاریوں سے نمٹیں زیادہ پریشانی کا شکار ہونے والوں کے لیے بیان جاری ہے ’’ہم نور جہاں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں، غفلتوں کی چھان بین کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس کی سفارشات پر پورا پورا عمل کیا جائے گا‘‘۔