جاوید چودھری اور شیاطین کی پوجا

1401

اقبال نے کہا تھا
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اقبال نے اس شعر میں مسلمانوں کو یہ بنیادی حقیقت بتائی ہے کہ اگر وہ ایک خدا کے آگے سر جھکا دیں تو اس طرح انہیں دنیا کے ہزاروں جھوٹے خدائوں کے آگے سر جھکانے کی ذلت سے نجات مل جائے گی۔ انسان ایک سچے خدا کے آگے سر نہیں جھکاتا تو وہ نسل، زبان اور جغرافیے کے بتوں کو پوجتا ہے، ان کے بت کے آگے سر جھکاتا ہے، دولت کے خدا کی پوجا کرتا ہے۔ طاقت کے بت کے تلوے چاٹتا ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب میں ایک خدا کا تصور موجود ہے مگر ہندو اپنی مقدس کتابوں کو بھول گئے ہیں اور انہوں نے ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33کروڑ خدا ایجاد کر لیے ہیں۔ ہندوستان میں آپ کو ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو چوہوں کا مندر بنا کر چوہوں کی پوجا کررہے ہیں۔ ہندوستان میں اداکار امیتابھ بچن کے پجاری بھی مل جائیں گے۔ پاکستان کے معروف کالم نگار جاوید چودھری شیاطین کے پجاری ہیں۔ یہ اکیلے نہیں دنیا میں بہت سے لوگ شیطان کو بھی پوجتے ہیں لیکن جاوید چودھری براہِ راست ابلیس کو نہیں پوجتے وہ شیطان کے چیلوں اسرائیل اور بھارت کو پوجتے ہیں۔ ان کی اسرائیل پرستی اور پوجا کی حدوں کو چھوتی ہوئی بھارت نوازای کی ایک مثال ان کا حالیہ کالم ہے۔ اس کالم میں جاوید چودھری لکھتے ہیں۔
ہم پوری دنیا اور ایک دوسرے سے ناراض بیٹھے ہیں، ہم نے کبھی ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا۔ آخر اسرائیل اور بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ اسرائیل کا تنازع اسلام اور یہودیت کا مسئلہ نہیں تھا، خلفاء راشدین سے لے کر خلافت عثمانی تک یہودی ہر دور میں مسلم ریاست کے شہری رہے اور مدینہ منورہ کے ابتدائی دنوں کے علاوہ ہماری کبھی ان سے جنگ نہیں ہوئی، یہودیوں کی اصل لڑائی عیسائیوں سے تھی لیکن یہ آج بھائی بھائی ہیں اور ہم لڑ رہے ہیں لیکن رکیے یہ لڑائی بھی اب پاکستانی اسرائیلی بن چکی ہے، فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کا ایشو تھا لیکن عرب ان کے ساتھ بیٹھ چکے ہیں، یو اے ای، عمان، ترکی، مصر ، اردن اور شام سے اسرائیل کے لیے باقاعدہ فلائٹس چلتی ہیں، دبئی نے اسرائیلی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی اجازت تک دے دی ہے لیکن پاکستان میں اس ایشو پر بات تک جرم ہے، آپ بات کرکے دیکھ لیں آپ کو یہودی ایجنٹ قرار دے دیا جائے گا۔ ہم یہ تک سوچنے کے لیے تیار نہیں ہیں ہم نے جن لوگوں کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں کھول کر بیٹھے ہیں جب کہ ہم آج بھی اس ایشو پر بات نہیں کرسکتے، کیوں؟ ہم نے بھارت کے ساتھ لڑ کر بھی 75 سال ضائع کردیے ہیں، ہمیں کیا ملا ہم آج ایک بلین ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہے ہیں جب کہ بھارت کے ایک بزنس مین گوتم اڈانی کو صرف ایک ہفتے میں 100بلین ڈالر نقصان ہوا اور انڈیا میں ایسے 276بزنس مین ہیں، ہمارا پٹرول، گیس، بجلی اور کپاس پوری نہیں ہورہی جب کہ ایران، ازبکستان، تاجکستان اور قزاقستان گاہکوں کا راستہ دیکھ رہے ہیں، اسرائیل ہم سے پوچھتا ہے بھائی صاحب عرب ہمارے ساتھ بیٹھے ہیں آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ بھارت بھی بار بار کہہ رہا ہے آپ ایشوز لاک کریں اور سرحدیں کھولیں، ایران اور روس ہمیں پٹرول اور گیس دینا چاہتے ہیں، چین گوادر میں انٹرنیشنل شہر آباد کرنا چاہتا ہے، یورپ ہمارے ہنر مندوں کے لیے ملک کھولنا چاہتا ہے اور امریکا پاکستان میں امن اور خوشحالی دیکھنا چاہتا ہے مگر ہم پوری دنیا اور اپنے ساتھ متھا لگا کر بیٹھے ہیں اور ہم اگر اس متھے بازی میں بھی خوش حال اور مطمئن ہوجاتے تو بھی کوئی ایشو نہیں تھا ہم سے تو آج اپنی روٹی پوری نہیں ہورہی لہٰذا پھر ہمیں اس متھے بازی کا کیا فائدہ ہوا؟
میری پوری قوم سے درخواست ہے جناب مکالمہ شروع کریں، سوچنا سمجھنا بھی شروع کریں، ملک کو دنیا کے لیے کھولیں، بھارت سے ڈائیلاگ شروع کریں، اسرائیل سے بھی مذاکرات کریں۔
(روزنامہ ایکسپریس ،21مارچ 2023)
جاوید چودھری نے یہ کالم اس پس منظر میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بہتر ہوگئے ہیں اور دنوں ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں اس تناظر میں جاوید چودھری کا خیال ہے کہ ہمیں اسرائیل اور بھارت کے ساتھ بھی مکالمہ کرنا چاہیے۔ ان کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار کرنا چاہئیں اور ہمیں بھی اسرائیل اور بھارت کے ساتھ دوستی کرنا چاہیے اسرائیل اور مسلمانوں کے تعلقات کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اسرائیل کوئی فطری ریاست نہیں، اسرائیل ایک مصنوعی ریاست ہے۔ اس کی کوئی اخلاقی، تاریخی اور سیاسی بنیاد ہی نہیں ہے۔ اسرائیل الف سے یے تک ایک ناجائز ریاست ہے۔ یہودیوں نے یہ کہہ کر فلسطین پر قبضہ کیا کہ آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے ارض فلسطین میں ان کی ریاست موجود تھی۔ اب اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر بھارت سے تمام ہندوئوں اور تمام مسلمانوں کو نکالنا ہوگا اس لیے کہ بھارت دراوڑوں کا ملک تھا، آریہ وسطی ایشیا سے آئے تھے اور انہوں نے دراوڑوں کو مار کر بھارت پر قبضہ کرلیا پھر مسلمان بھارت میں درآئے انہوں نے ایک ہزار سال تک بھارت پر حکمرانی کی لیکن آریہ ہوں یا مسلمان دونوں کا بھارت کی سرزمین سے اوریجنل تعلق نہیں چنانچہ انہیں بھارت چھوڑنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔ امریکا آج سے تین سو سال پہلے ریڈ انڈینز کا ملک تھا اور سفید فاموں نے ریڈ انڈینز کی نسل کشی کرکے امریکا پر قبضہ کرلیا چنانچہ امریکا کے تمام سفید فاموں کو بھی امریکا سے باہر نکال دینا چاہیے۔ آسٹریلیا جو بر اعظم ہے آج سے تین سو سال پہلے یہ آسٹریلیا ایک اوریجنز کا ملک تھا مگر سفید فاموں نے ان کو مار مار کر ادھ موا کرلیا اور ان کے ملک پر قبضہ کرلیا چنانچہ اصولی اعتبار سے مہذب دنیا کا فرض ہے کہ وہ آسٹریلیا کو بھی تمام سفید فاموں سے پاک کرے اور پورا آسٹریلیا ایک بار پھر ایب اوریجنز کے حوالے کردیا جائے۔ یہودی اگر ڈھائی ہزار سال بعد فلسطین پر اپنا حق جتا سکتے ہیں تو دراوڑ پانچ ہزار سال بعد اور ریڈ انڈینز اور ایب اویجنز تین سو سال بعد امریکا اور آسٹریلیا پر اپنا حق کیوں نہیں جتا سکتے، لیکن جاوید چودھری کو ان حقائق سے کچھ لینا دینا ہی نہیں وہ تو اندھی اسرائیلی پوجا میں مصروف ہیں۔ یہودیوں نے صرف جعلی وعدے کی بنیاد پر فلسطین سے ان کا وطن ہی نہیں چھینا بلکہ انہوں نے فلسطین میں ظلم و تشدد کی تمام حدود کو بھی پار کرلیا۔ یہودیوں نے 1917میں ہونے والے اعلان بالفور کے تحت اسرائیل کی بنیاد رکھی جس کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ یہودیوں نے دوچار ہزار نہیں پچاس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو جلاوطن کیا ہوا ہے۔ یہودی 1948ء سے اب تک ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کرچکا ہے۔ اسرائیل فلسطین کی تحریک آزادی کے درجنوں رہنمائوں کو صفحہ ہستی سے مٹا چکا ہے۔ اسرائیل فلسطینی بچوں تک پر رحم نہیں کرتا۔
وہ اسکول جانے والے فلسطینی بچوں کو تصادم کی آڑ میں گولی مار کر ہلاک کردیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ یہ بچے دوطرفہ تصادم یا کراس فائرنگ میں مارے گئے۔ اسرائیل نے غزہ میں فراہمی آب و نکاس آب کا نظام تباہ کردیا ہے۔ غزہ میں روزانہ چار پانچ گھنٹے تک بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ اسرائیل کے طیارے اسپتالوں تک پر بم برسا دیتے ہیں۔ اسرائیل نے ہدف بنا کر حماس کے قائد شیخ یٰسین اور عبدالعزیز رنتیسی کو شہید کیا۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے دو ایجنٹوں نے حماس کے رہنما خالد مشعل کو زہر دے دیا تھا مگر وہ پکڑے گئے اور پھر اسرائیل ان دونوں ایجنٹوں کی رہائی کے عوض زہر کا تریاق مہیا کیا اور اس طرح خالد مشعل کی جان بچائی گئی۔ اسرائیل کے ظلم کی انتہا یہ ہے کہ خود مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ غزوہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود جاوید چودھری کا خیال ہے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ مکالمہ کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھانی چاہئیں اور اس سے دوستی کرنی چاہیے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر عرب ممالک اسرائیل سے دوستی کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ اس وقت پوری عرب دنیا میں کوئی ایسا حکمران موجود نہیں جسے مسلمان تو کیا انسان بھی تسلیم کیا جائے۔ اخوان المسلمون عرب دنیا کے مرکزی دھارے کی تنظیم ہے۔ اس کے رہنما اور کارکن صاحب علم اور باعمل مسلمان ہوتے ہیں۔ مگر سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ عرب دنیا کے حکمران حماس کو بھی دہشت گرد تنظیم ہی سمجھتے ہیں۔ چناں چہ ایسے حکمرانوں کا طرزِ عمل پاکستان کے لیے قابل عمل نمونہ نہیں بن سکتا۔
جاوید چودھری کو چوںکہ اسرائیل کے ساتھ مکالمے کا بہت شوق ہے اس لیے ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بامعنی مکالمہ نہیں چاہتا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یاسر عرفات تھے۔ یاسر عرفات پی ایل او کے سربراہ اور فلسطین کی تحریک آزادی کی سب سے بڑی علامت تھے۔ ان پر امریکا، یورپ، روس، چین اور خوب عرب ریاستوں سے اسرائیل کے ساتھ مکالمے اور مذاکرات کے لیے دبائو ڈالا۔ چناں چہ یاسر عرفات نہ صرف یہ کہ مکالمے پر آمادہ ہوگئے بلکہ انہوں نے 1993ء میں اسرائیل کے ساتھ اوسلو امن سمجھوتے پر دستخط بھی کردیے۔ اسرائیل نے اس معاہدے کو صرف ایک سال میں ناکام بنا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفنا دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اوسلو امن سمجھوتے کے بعد اسرائیل نے یاسر عرفات کو ان کے دفتر میں محصور کردیا۔ اسرائیل تین سال تک یاسر عرفات کو محاصرے میں لیے رہا۔ اس محاصرے کے دوران اسرائیل نے اپنے ساتھ مکالمہ کرنے والے یاسر عرفات کو زہر دے دیا۔ اسرائیل پر بہت دبائو پڑا تو اس نے یاسر عرفات کو فرانس جانے کی اجازت دے دی مگر یاسر عرفات فرانس پہنچتے ہی چند دنوں بعد انتقال کرگئے۔ اسرائیل نے صرف مکالمہ کرنے والے یاسر عرفات کو قتل نہیں کیا۔ اس نے یاسر عرفات کے ساتھ مکالمہ کرنے والے اسرائیلی وزیراعظم اسحق رابین کو بھی مار ڈالا۔ ایک انتہا پسند یہودی نے اسحق رابین کو گولی مار کر قتل کردیا۔ یہ یاسر عرفات اور اسحق رابین کا نہیں مکالمے اور مذاکرات کا قتل تھا۔ اس کے باوجود جاوید چودھری چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے مکالمہ فرمائیں۔
جہاں تک اسرائیل اور بھارت کا تعلق ہے تو ان کا معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا بھارت ہے اور بھارت برصغیر کا اسرائیل۔ اسرائیل فلسطین پر قابض ہے اور بھارت نے کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ بھارت ہے جس نے مداخلت کرکے پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ یہ بھارت ہے جو تین دہائیوں تک کراچی کی بدامنی میں ملوث رہا ہے۔ یہ بھارت ہے جو بلوچستان میں علٰیحدگی پسندوں کی حمایت کررہا ہے۔ یہ بھارت ہے جو تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کررہا ہے۔ یہ بھارت ہے جو اکھنڈ بھارت کے تصور کے تحت پورے پاکستان کو بھارت کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہ بھارت ہے جس نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کی ہیں۔ یہ بھارت ہے جو کشمیری مسلمانوں پر جنگیں مسلط کرکے ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ بھارت اب تک ایک لاکھ کشمیری شہید کرچکا ہے۔ بھارت اب تک 12 ہزار کشمیری خواتین کی عصمتوں سے کھیل چکا ہے۔ بھارت نے ہزاروں کشمیریوں کو لاپتا کیا ہوا ہے۔ بھارت نے ہزاروں کشمیریوں کو جیل میں سڑایا ہوا ہے۔ بھارت نے کشمیر سے اس کا خصوصی اسٹیٹس بھی چھین لیا ہے۔ وہ کشمیری مسلمانوں کو کشمیر میں ایک اقلیت بنانے کی سازش پر عمل کررہا ہے۔ یہ بھارت ہے جہاں 1947ء سے اب تک پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ یہ بھارت ہے جس نے بھارت کے مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سیاسی زندگی کو تباہ کردیا ہے۔ یہ بھارت ہے جس نے دن دہاڑے بابری مسجد شہید کی۔ اس کے باوجود جاوید چودھری چاہتے ہیں کہ ہم بھارت کے ساتھ آنکھیں بند کرکے تجارت کریں اور اسے اپنے دل میں جگہ دیں۔ جاوید چودھری بتائیں کہ اگر کوئی شخص خدانخواستہ ان کے بیٹوں کو مار دے، ان کی بیٹیوں کی عصمتیں پامال کردے۔ ان کی بیوی کو اغوا کرلے اور خود جاوید چودھری کے ہاتھ پائوں توڑ کر انہیں معذور بنادے تو کیا جاوید چودھری ایسے شخص کے ساتھ مکالمہ کرنا پسند کریں گے؟ جاوید چودھری ایسے شخص کے ساتھ تجارت کی راہ ہموار کریں گے اور اسے اپنا دوست سمجھیں گے؟