ایک عام فرد کی رودادِ عالم

687

عدل اور انصاف کا تقاضا ہے کہ جہاں ہم اپنے معاشرے کی خرابیوں اور خامیوں پر تنقید کرتے ہیں وہیں اپنے معاشرے میں سرانجام دیے گئے اچھے امور کی تعریف اور ستائش بھی کریں۔ جیکب آباد میں قدیم گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ سے ملحق نو تعمیر شاندار عمارات میں جدید ترین مشینری سے آراستہ و پیراستہ ’’شاہین ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ‘‘ کے نام سے قائم ادارے میں پاکستان ائرفورس اور شہباز ائر بیس جیکب آباد کے زیر اہتمام طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مختلف علوم و فنون، کمپیوٹر کورس وغیرہ سکھانے کا بے حد اعلیٰ سلسلہ برائے نام فیس کے ساتھ گزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ تاحال سیکڑوں نوجوان یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد برسرروزگار ہوچکے ہیں۔ اپنے کالج سے چھٹی کے بعد موسم خوشگوار ہونے کے سبب پیدل گھر کی جانب واپسی کے وقت میں جب اس ادارے کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اتنے میں ایک سن رسیدہ چشمہ لگائے شخص لرزتے اور کانپتے ہوئے اس کے مرکزی دروازے سے باہر برآمد ہوئے۔ ان کے ہمراہ چہرے پر ماسک لگائے غالباً ان کی صاحبزادی تھیں۔ مذکورہ بڑے میاں باآواز بلند بڑبڑا رہے تھے، جس کا افسوسناک مفہوم یہ تھا کہ وہ اب شاید زیادہ عرصے تک اس ادارے میں اپنی ہم راہی طالبہ کو پڑھا نہیں پائیں گے، کیونکہ گھر تا ادارہ اور پھر ادارہ تا گھر وہ رکشے کا روز کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ دل یہ سن کر بے طرح اداس اور ملوں ہوگیا جو آج صبح پہلے ہی سندھی روزنامہ ’’سوبھ‘‘ کراچی کے صفحہ اوّل پر چھپنے والی اس خبر سے افسردہ تھا کہ ’’پاکستان میں گزشتہ ایک برس کے دوران کاغذ کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہونے کی وجہ سے پبلشرز نے نئی کتب شائع کرنے کا سلسلہ تقریباً موقوف کردیا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے پاکستان میں ایک عام فرد کی زندگی بہت بُری طرح سے متاثر ہوئی ہے اور مہنگائی کی بنا پر ہمارے معمولات زندگی پر بھی بہت بُرے اور گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آج صبح ہی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدر آباد میں ایک اقتصادی رپورٹ پڑھتے ہوئے معلوم ہوا ہے کہ جس اکائونٹ ہولڈر نے گزشتہ برس اپنے اکائونٹ میں ایک لاکھ روپے جمع کروائے تھے، افراطِ زر کی شرح تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے اب اس کی یہ رقم بجائے بڑھنے کے گھٹ کر محض 55 ہزار روپے کے قریب رہ گئی ہے۔ دوسری جانب وطن عزیز نادہندہ ہونے کے شدید خطرے سے دوچار ہوچکا ہے۔ مقتدرہ سمیت ساری اقتدار پرست سیاسی جماعتیں اور موجودہ حکومت اقتدار، اقتدار کا کھیل کھیلنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی مذموم مساعی میں مصروف ہیں۔ صرف سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان ہی وطن عزیز کی فکر میں گھلے جارہے ہیں اور صحرا میں اذان پر اذان دینے میں ہمہ وقت مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اور شاید اسی عالم تشویش میں انہوں نے ملک سے سیاسی کشیدگی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں آکر قیام کرنے کی فراخ دلانہ پیشکش کی ہے۔ اس عمران خان کو جنہوں نے ماضی میں کے پی کے میں ہر طرح سے وفاداری نبھانے اور پوری طرح سے ایمان داری کے ساتھ، ساتھ دینے کے باوصف نام نہاد خیبر بینک کے اسکینڈل میں جماعت اسلامی کو بلاوجہ ہی ادنیٰ سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر بلیک میل کرنے کی ناکام کوشش کی اور نتیجتاً خود ہی خائب و خاکسر ہو کر بیٹھے رہے۔ رہے ہمارے موجودہ حکمران تو ان کی بھی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے تلوے چاٹنے اور تمام تر شرائط کو ماننے کے بعد بھی اس کی جانب سے پاکستان کو قرضہ ملنے کی مستقبل قریب میں بظاہر تو کوئی اُمید دکھائی نہیں پڑتی۔ جبکہ ہمارے خودداری اور عزتِ نفس سے عاری حکمران خود ان کے بقول قرضہ کے حصول کی خاطر آئی ایم ایف کے حضور ایک طرح سے ناک رگڑنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ اور شاعرانہ زبان میں اگر کہا جائے تو ہر وقت ’’کوچۂ رقیب میں سر کے بل‘‘ بھی جانے کے لیے آمادہ و تیار بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر بے اختیار مرزا غالبؔ کا یہ شعر ادنیٰ تصرف کے ساتھ نوکِ قلم پر آگیا ہے۔
ہو منحصر ’’آئی ایم ایف‘‘ پر جس کی اُمید
نا اُمیدی پھر اس کی دیکھا چاہیے
جناب اقبالؒ تو لگ بھگ ایک صدی پیش تر اس حوالے سے فرما گئے ہیں کہ اہل یورپ بڑے مکار، عیار اور کائیاں ہیں، وہ بغیر اپنی شرائط منوائے بغیر کسی کی کوئی مدد نہیں کیا کرتے۔
میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سُرور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر
عالمی مالیاتی ادارے جس طرح اپنی ناروا شرائط حکمران طبقہ سے منوانے کی سعی کیا کرتے ہیں اس حوالے سے جناب سراج الحق کے بطور وزیر خزانہ کے پی کے، ایک ناخوشگوار تجربے کا کلپ، جوان کی ایک تقریر سے اخذ کردہ ہے سوشل میڈیا پر ایک عرصے سے وائرل ہے۔ امیر جماعت نے تو اپنی قوت ایمانی کے بل بوتے پر عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک کی بے جا شرط نہیں مانی تھی لیکن کیا ہم اس کی توقع اپنے سابق اور موجودہ حکمرانوں سے قائم کرسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں قطعی نہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ہماری طرح کے مجبور اور بے بس ممالک کو کس طرح قرض دے کر بلیک میل، بدحال اور نڈھال کرکے نیم جان کردیتے ہیں۔ اس حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے سے وابستہ اس کے ایک کرتا دھرتا جان پرکسز کی انگریزی میں لکھی گئی کتاب Confessions of an Economic hit Man جس کا اردو ترجمہ ’’اقتصادی غارت گری‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے، ازحد چشم کشا اور عبرت انگیز ہے۔ کاش ہمارے حکمران اور معاشی ماہرین بھی اس کے مطالعہ سے فیضیاب ہوسکیں۔ آج وسائل سے مالا مال وطن عزیز میں روزافزوں مہنگائی ہے، جس کی حالیہ ہولناک شرح ایک خبر کے مطابق 48 فی صد ہوچکی ہے۔ جرائم کی وارداتوں اور ذہنی امراض میں بے تحاشا اضافہ ہوچکا ہے، خصوصاً دیہی سندھ میں سرشام گھر سے باہر نکلنا یا سفر کرنا گویا ڈاکوئوں کو ایک طرح سے اغوا کرنے کی دعوت دینے کے مترادف بن چکا ہے۔ جس کے قبضے میں اس وقت بھی کچے کے علاقے میں درجنوں مغوی تاوان کی وصولی کی غرض سے قید ہیں، جنہیں درندہ صفات ڈاکو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر ہر روز ہی ان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں۔ حکومت سندھ خاموش ہے انتظامیہ اور پولیس خاموش ہے اور دیگر نفاذِ امن عامہ کے ذمے دار ادارے بھی۔ صرف الیکٹرونک، پرنٹ میڈیا پر چیخ و پکار ہورہی ہے یا پھر سکھر ہائی کورٹ کے جناب جسٹس صلاح الدین پنہور اور جسٹس مبین الدین لاکھو ہیں جو اپنے عدالتی ریمارکس سے متعلقہ ذمے داران کو جھنجھوڑنے میں مصروف ہیں۔ کاش حکومت سندھ اور پولیس کے لیے عدالتی ریمارکس تازیانہ عبرت بن سکیں۔