پاکستان کو شدید آئینی بحران کا سامنا

481

تجزیہ کار حیران ہیں کہ مینار پاکستان کے جلسے میں اتنی مخلوق کہاں سے اُمڈ آئی حالانکہ عبوری پنجاب حکومت نے جلسے کی اجازت دینے کے باوجود جلسہ گاہ میں پانی چھوڑ دیا تھا اور کنٹینرز لگا کر مینار پاکستان کو جانے والے تمام راستے مسدود کر دیے تھے۔ اس پر مستزاد کہ رمضان شروع ہو گیا تھا اور لوگ روزے سے تھے۔ جلسے کا وقت ایسا رکھا گیا تھا کہ لوگ روزہ افطار کرنے اور مغرب و عشا اور تراویح پڑھنے کے بعد سونے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب رات کو سیاسی جلسے ہوا کرتے تھے اور لوگ ان میں بڑے ذوق و شوق سے شریک ہوتے تھے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ان جلسوںمیں خطاب کے لیے کھڑے ہوتے تو ان کا خطاب اتنا طول کھینچتا کہ فجر ہوجاتی اور مسجدوںسے اذانیں گونجنے لگتیں اور شاعر کہہ اٹھتا
موذن مرحبا بروقت بولا
تری آواز مکے اور مدینے
رات میں جلسے کی روایت تو کب کی ختم ہو گئی ہے اب سہ پہر کو جلسے ہوتے ہیں اور شام تک جاری رہتے ہیں اندھیرا چھانے سے پہلے پہلے لوگ گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں۔ عمران خان نے رات میں جلسہ کر کے اس روایت کو دوبارہ زندہ کر دیا، جو لوگ اپنی گاڑیوں میں اپنی فیملی کے ساتھ آئے انہیں ڈیڑھ دو کلو میٹر دور اپنی گاڑیاں کھڑی کر کے پیدل جلسہ گاہ میں آنا پڑا کہ کنٹینرز نے گاڑیوں کی جلسہ گاہ تک رسائی ناممکن بنا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لاہوریوں کا جلسہ جو شریفوں کے خلاف ایک ریفرنڈم کا درجہ رکھتا تھا۔ پنجاب پر شریف فیملی نے تیس پینتیس سال حکومت کی ہے۔ پنجاب کا درالحکومت لاہور شریفوں کا گڑھ تھا لیکن شریفوں نے اہل لاہور بلکہ اہل پاکستان کو کبھی اپنا نہیں سمجھا جب بھی مصیبت پڑی تو اپنے وطن یا لاہور کی آغوش میں پناہ لینے کے بجائے بیرون ملک سدھار گئے۔ نواز شریف اور ان کے بیٹوں نے تو اپنا مستقل ٹھکانا ہی لندن میں بنا لیا ہے بیٹے بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا پاکستان سے کیا لینا دینا ہم تو برطانوی شہری ہیں۔ نواز شریف علاج کے بہانے لندن گئے تھے کئی سال ہو گئے آنے کا نام نہیں لے رہے۔ مثل مشہور ہے ’’خانہ خالی را دیو می گیرد‘‘ تو اس سیاسی خلا کو عمران خان نے پر کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت جسے میاں نوازشریف لندن سے بیٹھ کر چلا رہے ہیں اپنی نااہلی اور اپنے حریفوں کی پکڑ دھکڑ کے ذریعے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ کر رہی ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے اور ملک کا تاجر طبقہ ہوشربا مہنگائی میں اس ماہ مبارک کے دورن مزید اضافہ کر کے حکومت کے مشن کو مزید تقویت دے رہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کا مشن اس کے سوا اور کیا ہے کہ اپنی نااہلی، نالائقی اور بیڈ گورننس کے ذریعے عمران خان کی مقبولیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ حکومت یہ کام بڑی مستعدی سے کر رہی ہے اور اس کا کریڈٹ نواز شریف کو بھی جاتا ہے جو لندن میں بیٹھ کر حکومت کے تار ہلا رہے ہیں۔
خیال تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق 30 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کی کوشش کرے گا لیکن اتحادی حکومت کو یہ منظور نہ تھا وہ سرجوڑ کر بیٹھی اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انتخابات ملتوی ہونے چاہئیں کہ حالات اس کے حق میں ساز گار نہیں ہیں چنانچہ الیکشن کمیشن کو یہ فیصلہ پہنچایا گیا اور اس نے کمال تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ عذر یہی پیش کیا گیا کہ سیکورٹی فراہم کرنے اور مالی وسائل دینے والے ریاستی ادارے اس سے تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں اس طرح انتخابات اب 8 اکتوبر کو ہوں گے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 8 اکتوبر تک ایسی کیا تبدیلی آئے گی کہ ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو جائیں گے؟ عمران خان کہتے ہیں کہ جوں جوں وقت گزرے گا حالات بگڑتے جائیں گے اور 8 اکتوبر کو انتخابات کرانا آج سے زیادہ مشکل ہو جائے گا۔ بات ان کی بڑی حد تک درست ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑنے کے باوجود ابھی تک اس سے معاہدہ نہیں ہو سکا۔ دوست ملکوں نے بھی تعاون کی ہامی نہیں بھری۔ حکومت کے لچھن وہی ہیں جو پہلے تھے۔ جج جرنیل اور بیوروکریٹس۔ کسی نے بھی
اپنی مراعات رضاکارانہ طور پر چھوڑنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی۔ لحیم شحیم وفاقی کابینہ کے اخراجات وہی ہیں جو پہلے تھے وزیراعظم کا مفت کام کرنے کا اعلان ہوا میں اڑ گیا ہے۔ بچت کمیٹی نے سرکاری اخراجات میں پندرہ فی صد کمی کی جو تجویز پیش کی تھی اس پر بھی عمل نہیں ہو سکا ایسی صورت حال میں پاکستان 8 اکتوبر تک نجانے کن حالات سے دوچار ہو۔ مرزا غالب کہتے ہیں
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تو بات اب اعتبار تک پہنچ گئی ہے اور کسی کو اعتبار نہیں ہے کہ حکمران ٹولہ اور ہیئت مقتدرہ 8 اکتوبر کو صرف دو اسمبلیوں کے نہیں بلکہ پورے ملک میں عام انتخابات کرانے پر آمادہ ہو جائے گی۔ کیونکہ اکتوبر میں قومی اسمبلی کی میعاد بھی ختم ہو رہی ہے۔
پاکستان اس وقت شدید آئینی بحران میں مبتلا ہے جب کہ مالی بحران اور ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ اس کے علاوہ ہے۔ صدر عارف علوی نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آئین پر عمل کر کے اس بحران کو ٹالنے کی کوشش کریں۔ قبل اس کے کہ وزیراعظم اس کا جواب دیتے، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے اپنی اوقات سے بڑھ کر صدر کو شٹ اپ کال دے دی اور کہا کہ صدر اپی اوقات میں رہیں۔ وزیراعظم نے بھی اپنے طویل جواب میں آئین پر عمل کرنے کی یقین دہانی کے بجائے صدرکو مطعون کرنا مناسب سمجھا۔ آئین شکنی ہماری روایت بن چکی ہے تو کیا ہم پھر 1971ء جیسے المیے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟