میں نے ترازو کا انتخاب کیوں کیا؟

891

میں نے کاغذات نامزدگی پی پی 155 کی سیٹ پر جمع کروائے جس میں کینٹ، اور گلبرگ شامل ہیں۔ ایک ماہر معیشت، بیرسٹر اور صحافی ہونے کی وجہ سے پاکستان بننے کے بعد سے اب تک تمام ادوار کے سیاستدان اور معیشت کو مطالعہ کرنے کا موقع ملا تو ایک چیز میں مماثلت پائی گئی جس نے پاکستان کو آج بدترین معاشی بحران میں لاکھڑا کیا وہ ہے کرپشن، بددیانتی اور پیشہ وارانہ مہارت کی کمی، اس میں بڑے بڑے نام جن میں ایوب خان، جنرل یحییٰ، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور عمران خان، جنرل قمر باجوہ، جنرل پرویز کیانی وغیرہ۔ میں نے تلاش کرنا شروع کیا کہ کون سی جماعت اور سیاستدان کرپشن سے پاک ٹھیرے تو وہ جماعت اسلامی نظر آئی جس جماعت اور اس کے منتخب نمائندوں کے اوپر کرپشن کا کوئی الزام نظر نہیں آیا اب مجھے یہ طے کرنا تھا انتخابات میں حصہ لوں یا نہ لوں اگر انتخابات میں حصہ لوں تو کون سی جماعت کا انتخاب کروں۔ میں نے جماعت اسلامی کا انتخاب کیا جہاں کسی قسم کی کرپشن نہیں ہے۔ میرا انتخابی نشان ترازو ہو گا، ترازو کیوں ہوگا؟ جس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ عوام اب تک خود چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے تھے۔ پہلے چکی کے یہ دو پاٹ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی تھے۔ اب مسلم لیگ ن یا پی ڈی ایم اور تحریک انصاف ہیں لیکن اب انہیں آزمائے ہوئے گروہوں سے منہ موڑ کر کسی نئے آپشن کی طرف رخ کرنا ہوگا۔ کیوں؟ اس کا جواب آنے والی سطور میں دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ جماعت اسلامی کو مذہبی و سیاسی جماعت کہا جاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں میں سب سے منظم جماعت، جماعت اسلامی کو سمجھا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی اپنے آغاز ہی سے ایک ایسی تحریک ثابت ہوئی جس نے نظریہ پاکستان کی حمایت میں ایسا لشکر تیار کیا جس نے تحریک پاکستان کو فکری بنیاد مہیا کی۔ اس جماعت کا بنیادی وصف رہا ہے کہ یہ دین کا نفاذ عام زندگی میں صالحین اور مومنین کے ذریعے کرنا چاہتی ہے۔ یہ بندوں پر بندوں کی حکمرانی کے خلاف ہے بلکہ یہ ریاستی اختیار کو اللہ کے ہاتھ میں دینے کے حق میں ہے۔ آج بھی نظم و نسق اور تنظیم میں جماعت اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ تاریخی تناظر میں اگر جماعت اسلامی کا کردار دیکھا جائے تو یہ معاشرے میں تعمیری اور مثبت تبدیلی کے لیے ہمیشہ کوشش کرتی رہی ہے۔ قیام پاکستان کا سوال ہو یا اس کے بعد دستور سازی کے سلسلے میں پاکستان کو نظریاتی مملکت قرار دینے کے لیے قرارداد مقاصد کی منظوری ہو یا پھر قادیانیوں کو کافر قرار دیے جانے کی تحریک ہو جماعت اسلامی نے ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ جماعت آمریت کے خلاف مادرملت کی حمایت اور سوشلزم و سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہی۔ 1973 کے آئین میں اسلامی دفعات ہوں یا تحریک نظام مصطفی جماعت اسلامی نے کبھی قدم پیچھے نہیں ہٹائے۔ افغانستان کا جہاد ہو، کشمیر کی آزادی کی بات ہو، مشرف کی آمریت کی مخالفت ہو، عدلیہ بحالی کی تحریک ہو یا کرپشن فری اسلامی اور خوشحال پاکستان کی ملک گیر مہم جماعت اسلامی کا کردار کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ غربت کے خاتمے سے لے کر خدمت خلق کے میدان تک جماعت کا مقابلہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت سے کیا ہی نہیں جا سکتا۔ تعلیم، صحت، قرضہ حسنہ کی فراہمی، دستکاری اسکول، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، قدرتی آفات میں متاثرین کی مدد سے ان کی بحالی تک کوئی دوسری سیاسی جماعت اس کے قریب بھی نہیں آ سکتی۔ اگر کہا جائے کہ جماعت اسلامی کی فکر مقامی و قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے تو یہ کسی طور غلط نہیں ہو گا۔ سیاسی نقطہ نظر سے جماعت اسلامی کی جدوجہد دیکھی جائے تو یہ کئی سیاسی جماعتوں سے زیادہ جمہوری نظر آتی ہے۔ جمہوریت کی خاطر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ اس وقت دیا جب آج کی بہت سی جمہوریت کی چمپئن جماعتیں آمر کی گود میں بیٹھی تھیں۔ 1970 کے انتخابات کے وقت جماعت اسلامی وہ واحد جماعت تھی جس نے مغربی اور مشرقی پاکستان میں بیک وقت اپنے نمائندے کھڑے کر کے ثابت کیا کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں قوم کے ساتھ کھڑی ہے۔ انتخابات میں اگرچہ جماعت کے صرف چار افراد کامیاب ہوئے مگر وقت نے ثابت کیا کہ ان چار افراد کی کارکردگی پوری اسمبلی کی کارکردگی پر بھاری تھی۔
پروفیسر غفور احمد جیسے معتدل مزاج اور کھرے آدمی اس کے پارلیمانی لیڈر رہے 1993 میں اسلامک فرنٹ بنا تو اس میں بھی اپنا حصہ ڈالا مگر یہ اتحاد زیادہ نشستیں حاصل نہ کر پایا۔ 1999 میں مشرف کی آمریت کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز قاضی حسین احمد کی تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 2002 میں متحدہ مجلس عمل بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا جس نے انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ عدلیہ بحالی تحریک میں جماعت کے امیر قاضی حسین احمد نے کارکنان سمیت ڈنڈے تک کھائے۔ جماعت اسلامی کے کسی رکن نے این آر او سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ پاناما لیکس، دبئی لیکس، اقامہ اسکینڈل اور نیب اسکینڈل کسی میں جماعت اسلامی کی قیادت یا ان کے کسی بھی درجے کے قائدین کے شامل ہونے کا کوئی شائبہ تک نہیں جبکہ دوسری طرف دیگر جماعتوں کے بڑے بڑے برج گرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے کسی رکن پارلیمنٹ نے کک بیکس لیے نہ کبھی کسٹم ڈیوٹیاں معاف کروائیں مگر اس سب کے باوجود جماعت اسلامی قومی سطح پر حکومت بنانا تو دور کی بات ہے انتخابات میں کبھی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کر پائی۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔
سراج الحق معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ معروف پاکستانی تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کی ایک رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت کہیں زیادہ جمہوری مذہبی سیاسی جماعت ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی متحرک خواتین کارکنان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسی جماعت ہے جس میں موروثی سیاست پنپنے کی گنجائش دیگر پاکستانی سیاسی جماعتوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور فرقوں اور مسلکوں کی لڑائی میں یہ اتحاد و یکجہتی کی سب سے توانا آواز ہے۔ یہ درحقیقت غریبوں اور عام لوگوں کی جماعت ہے جو غربت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اب پچھلے کچھ عرصے سے جماعت اسلامی کے حق میں ’’حل صرف جماعت اسلامی‘‘ کی طرح کے نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ ایسے نعروں کے مقابلے میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا مذہبی جماعتوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ اس میں شک نہیں کہ مذہبی جماعتوں کا اصل کام دین کی تبلیغ ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اقتدار اور اختلاف میں موجود سیاسی جماعتوں کی حلیف یا حریف بنے بغیر دعوت کا سلسلہ یکساں طور پر پہنچایا جائے مگر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں پر ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ کے کاموں پر تعاون نہ کرو‘‘۔ جماعت اسلامی ہی کیوں کوئی بھی مذہبی جماعت ہو اس کے وہ امید واران جو دیانت دار ہوں، تقوی، پرہیز گاری اور فہم و فراست سے مسا ئل کو حل کرنا جانتے ہوں اور ملکی سیاست سے آگاہ ہوں اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ انہیں پالیسی ساز اداروں اور حکومت میں شامل کیا جائے۔ یا پھر حکومت ان کے حوالے کی جائے۔ جماعت اسلامی نے بحیثیت مجموعی دیانت داری میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اسے جب بھی کوئی حکومتی عہدہ سونپا گیا اس کے اراکین نے دیانت داری سے کام لیتے ہوئے حکومتی خزانہ کو فہم و فراست سے استعمال کیا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تین بار جماعت اسلامی کے میئر منتخب ہوئے۔ کراچی کے دو بار مئیر منتخب ہونے والے مئیر عبدالستار افغانی جب مئیر شپ چھوڑ تے ہیں تو ان کا وہی چھوٹا سا فلیٹ ان کی پہچان بنتا ہے جو مئیر شپ لینے سے پہلے ان کے پاس تھا۔
کراچی کے بجٹ کو چار ارب سے 44 ارب تک پہنچانے والے جماعت اسلامی کے ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں کمیشن سے پاک کلچر فروغ پاتا ہے۔ اس وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کی لاگت کروڑوں سے لاکھوں میں پہنچ جاتی ہے۔ نعمت اللہ خان کی خدمات کا اعتراف ان کے بدترین مخالف بھی کرتے ہیں۔ مثلاً جنرل پرویز مشرف اور ایم کیو ایم وغیرہ۔ نہ صرف یہ بلکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں بھی جماعت کے وزراء کی کارکردگی مثالی رہی۔ ان سب کے دامن کرپشن سے پاک رہے اور سرکاری خزانے کو امانت سمجھ کر استعمال کیا گیا۔ سراج الحق کی بحیثیت وزیر خزانہ (خیبر پختون خوا) کارکردگی ایسی رہی کہ ان کی امانت اور دیانت داری کا ہر کوئی قائل ہوا۔ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی مذہبی جماعت نہیں بلکہ تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ دیگر عوامی تحریکوں کے برعکس ایک نظریاتی تحریک ہے۔ عوامی تحریکیں محض نعروں تک محدود ہوتی ہیں جو لوگوں کا ہجوم تو اکٹھا کر لیتی ہیں مگر نظریاتی اساس نہ ہونے کی وجہ سے دائمی اثر سے محروم ہوتی ہیں۔ ان کے خوش نما نعرے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی بلا سود معاشی نظام کے لیے کوشاں ہے۔ ملک کو اس وقت دیانتدار اور کرپشن سے پاک قیادت کی ضرورت آج سے زیادہ کبھی نہ تھی۔ ایسے میں جو لوگ جماعت اسلامی کو اپنا اگلا آپشن بنانے کے لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، انہیں اپنی جھجھک اور ہچکچاہٹ دور کر لینی چاہیے۔ ایک ایسی جماعت کو آزمانا چاہیے، جس کے افراد کو جہاں بھی ذمے داری دی گئی، انہوں نے اہلیت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ کوئی دوسری جماعت ایسی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اس لیے اب واضح طور پر جماعت اسلامی کا یہ دعویٰ درست معلوم ہوتا ہے کہ: حل صرف جماعت اسلامی۔
یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ہی متبادل قیادت فراہم کرسکتی ہے۔ جب کہ تینوں بڑی پارٹیاں ہر طرح کے کرپشن میں ملوث ہے۔ جماعت اسلامی کو جس میدان میں موقع ملا ہے انہوں نے کام کر کے دکھایا ہے حالیہ سیلاب کی صورتحال میں ان کے شعبہ الخدمت نے جس طرح کام کیا انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔