آئی ایم ایف کس کے خوف کا ترجمان؟

626

آئی ایم ایف نے قرض کی اگلی قسط کے لیے پاکستان کو ناک سے لکیریں نکالنے کے کام پر لگادیا ہے مگر اس کے باوجود قرض کی قسط آرہی ہے نہ دونوں میں معاملات میں طے ہو رہے ہیں۔ حکومت اپنی تجربہ کاری اور تعلقات کے جس زعم میں مبتلا تھی اور آئی ایم ایف کو دوسروں سے زیادہ سمجھنے کا ڈھنڈورا پیٹتی تھی ان کے اندر کچھ بھی نہیں وہ سب ایک خالی ڈھول ہی نکلا۔ آئی ایم ایف کے آگے نہ زبان دانی کام آئی نہ تجربہ کاری اور نہ مغرب پسندی۔ آج نہیں تو کل آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوجانے کی امید دلائی جاتی رہی اور اب بھی وزیر اعظم شہباز شریف یہی امید دلارہے ہیں مگر عملی طور پر کچھ ہوتا نظر آتا۔ اس غیر یقینی کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو معیشت ٹھیک ہو رہی ہے اور نہ سیاست کی زلف سنور رہی ہے۔ اب آئی ایم ایف کی نئی شرائط سامنے آرہی ہیں۔ جن میں ایک یہ ہے کہ پاکستان اپنے دوست ملکوں سے رقم ادھار لے کر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ازکم گیارہ ارب پر لے جائے اس کے بعد آئی ایم ایف ایک ڈیڑھ ارب کی قسط دے گا۔ اس ڈیڑھ ارب کے لیے پاکستان آئی ایم ایف کی ہر شرط کو پورا کرنے پر مجبور ہے۔ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور روپیہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہو کر رہ گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس سب کے باوجود آئی ایم ایف کی تشفی نہیں ہو رہی۔
کچھ عرصے سے یہ افواہیں زوروں پر تھیں کہ آئی ایم ایف کے مطالبات اب مہنگائی اور معاشی معاملات تک محدو د نہیں رہے بلکہ اسٹرٹیجک حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ اب باتیں پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور فوج کی تعداد تک پہنچ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ میں یہ تحریک پیش کی کہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں ایٹمی اثاثوں کا ذکر ہو رہا ہے تو حکومت بتائے کہ کیا واقعی ایسا ہے۔ رضا ربانی ظاہر ہے حکومتی رکن ہیں اور انہیں بخوبی ان مطالبات کا اندازہ ہوگا جو آئی ایف پاکستان کو تھمائے ہوئے ہے۔ اسی بحث کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار اسکرین پر اُبھرے اور انہوں نے آئی ایم ایف کے مطالبے کو ناواجب قرار دیا کہ پاکستان اپنے دور مار میزائلوں کی رینج کم کرے۔ یوں اسحاق ڈار نے یہ تصدیق کی کہ آئی ایم ایف اب معاشی معاملات سے آگے بڑھ کر اپنے اصل ہدف یعنی اسٹرٹیجک معاملات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ اور بات جب اچانک کہیں سے دبائو آیا تو اسحاق ڈار نے اگر مگر کے ساتھ تردید کا راستہ اپنالیا۔ ایک وہ وقت تھا جب سابق مشیر خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف ہمارا گلہ اتنا نہ گھونٹے کی سانس لینا دشوار ہوجائے تو اس وقت اپوزیشن جماعت پی ڈی ایم نے انہیں توہین آئی ایم ایف کا مرتکب قراردیا تھا۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اب وہی پی ڈی ایم آئی ایف کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا فوری مطالبہ شاہین میزائلوں کی رینج کم کرنے سے متعلق بتایا جاتا ہے۔ شاہین دور تک مارکرنے والا میزائل جو بھارت کے آخری کونے تک ہدف کو نشانہ بنانے کی غرض وغایت سے تیار کیا گیا ہے۔ پاکستان چونکہ چوڑائی میں کم رقبہ رکھتا ہے اس لیے بھارت کے لیے پاکستان کو کسی بھی مقام سے کہیں بھی نشانہ بنانا آسان ہے۔ اس کے برعکس بھارت چوڑائی میں بہت دور یعنی بنگلا دیش کی سرحد تک پھیلاہوا ہے اس لیے پاکستان کے لیے شاہین میزائل سے پہلے بھارت کے جنوبی علاقوں اور شہروں کو نشانہ بنانا ممکن نہیں تھا۔ اس فاصلے کو پرکار سے گھمائیں تو اس کی رینج میں یورپ اور اسرائیل تک آتے ہیں۔ شاید یہی وہ اصل وجہ ہے کہ ایک مسلمان ملک کے پاس اس قدر مار کرنے والا ایٹمی میزائل خطرے کی علامت بن رہا ہے۔ اسرائیل چونکہ ہمیشہ سے اس بات سے خوف زدہ رہا ہے کہ کوئی بھی مسلمان ملک کسی بھی بات سے اشتعال میں آکر اسرائیل کو ہدف بنا سکتا ہے اس لیے مسلمان ملکوں کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی اسرائیل کے اندر کا مستقل خوف ہے۔ اسرائیل کے عزائم بہت آگے کے اور طویل المیعاد ہیں اس لیے اسے مسلمان ملکوں کے پاس خطرناک ہتھیاروں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
دنیا میں جب نہ دہشت گردی کا چلن تھا اور نہ القاعدہ اور اُسامہ منظر پر تھے اور نہ نائن الیون ہوا تھا مگر اس وقت بھی اسرائیل نے عراق کے ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ یہ صرف اندر کے خوف کا اظہار تھا۔ بعد میں یہودی پریس اور دانشور ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا تھا۔ عراق کے بعد لیبیا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی اسی خوف کا اظہار تھا۔ پاکستان کے ایٹم بم کا نام چونکہ اسلامی بم رکھا گیا ہے اس لیے ایک مستقل خوف اور دھڑکا اس سے وابستہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اب شاہین میزائلوں کی رینج سے خوف کا اظہار بھی یہی ثابت کرتا ہے۔ آئی ایم ایف حقیقت میں اسرائیل کے خوف کا ترجمان ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ ایک طرف پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے بھی خوف محسوس کیا جاتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے کم ترین فاصلے پر مارکرنے والے نصر میزائلوں سے بھی خوف محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ اس خوف کا تعلق بھارت سے رہا ہے اور پرائیویٹ محفلوں میں پاکستان کو اس خوف سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔ نصر میزائل بھارت کے اس دفاعی تصور کے گرد گھومتا ہے کہ اگر پاکستان میں انتشار ہوتا ہے تو بھارتی فوج کو حالات کو سنبھالنے کے لیے پاکستان میں داخل ہونا پڑے گا۔ اس تھیوری کا تعلق ان نقشوں سے ہے جو امریکی تھنک ٹینکس کی الماریوں میں پڑے ہیں جن میں 2015 کے بعد پاکستان نامی ریاست کا وجود ہی نہیں ملتا تھا۔ آپریشن کولڈ اسٹارٹ کوناکام بنانے کے لیے پاکستان نے ایسے چھوٹے میزائل اور ہتھیار بنائے جن سے دشمن کی فوج کو اپنے علاقے میں آنے دیا جائے اور اس کے بعد اسے چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کا نشانہ بنایا جائے۔ شاید اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے شیخ رشید نے ایک بار کہا تھا کہ ہمارے پاس ایک پائو والے ایٹمی ہتھیار ہیں بھارت کسی بھول میں نہ رہے۔ نصر میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد ہی افواج پاکستان کے سربراہ راحیل شریف نے کہا تھا کہ ہم نے کولڈ اسٹارٹ کے تصور کو دفن کر دیا ہے۔ اب آئی ایم ایف کی طرف سے اس طرح کے مطالبات سے صاف ظاہر ہے کہ معاملات اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں تک پاکستان کو معاشی طور پر مجبور اور عاجز کرکے لانا مقصود تھا۔