متحدہ کے بعد اب کیا ہوگا؟

553

یہ کمال نہیں تو اور کیا ہے گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی کراچی میں اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر بول پڑے۔ یہ میری کم علمی ہے یا پھر غلط فہمی کہ میں نے اپنی شعوری زندگی میں کبھی بھی یہ نہیں سنا کہ کسی گورنر کو اشیاء خورو نوش کی مہنگی فروخت پر تشویش ہوئی۔ 9 اکتوبر 2022 کو گورنر کے عہدے پر فائز ہونے والے سونے کے تاجر کامران ٹیسوری نے کہا کہ رمضان المبارک میں کراچی میں ہر چیز مقررہ نرخ سے دگنی قیمت پر مل رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’میں پوچھتا ہوں ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز اور پرائس کنٹرولرز کی فوج اس موقع پر کیا کررہی ہے؟‘‘۔ گورنر کے اس سوال پر حیرت کے ساتھ تشویش ہے کہ کیا کامران ٹیسوری نے کراچی کے حالات اور بازاروں پر بہت دن بعد نظر دوڑائی ہے یا پھر انہیں ’’گورنری‘‘ کا احساس ہوا ہے یا پھر ایسے عہدے سے بہتر وہ مستعفی ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں عوامی مسائل کے باعث عہدوں سے استعفا دینے کی روایت نہیں ہے اس لیے یہ گمان کرنا بھی غلط ہوگا البتہ چند روز قبل یہ بازگشت ضرور تھی کہ کامران ٹیسوری کی گورنر کے عہدے سے چھٹی ہونے والی ہے۔ اب گورنر کے اس غیر معمولی اور غیر روایتی بیان سے ایسا تاثر ملا کہ ان کی چھٹی یقینی ہونا کسی بااثر حلقے میں طے ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ محمد کامران ٹیسوری کو اس آئینی عہدے سے 5 ماہ کی مختصر مدت میں ہٹانا موجودہ سیاسی حالات میں آسان نہیں ہوگا۔ یہ بات اس لیے بھی کہنا پڑ رہی ہے کہ گورنر ٹیسوری ہو یا کوئی اور ان کے تقرر کا تعلق صرف سیاسی جماعت یا جماعتوں کی خواہش پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس عہدے پر کسی شخصیت کے تقرر کے لیے سسٹم کی بااثر عنصر کی حمایت بھی ضروری ہوتی ہے۔ تاہم چونکہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے کامران ٹیسوری نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ لسٹ میں آلو 35 روپے کلو ہے لیکن بازار میں وہ 70 روپے کلو پر دستیاب ہے۔ اْن کا کہنا تھا کہ کمشنر کراچی اپنے مقرر کردہ نرخ پر بھی عمل درآمد نہیں کرا پارہے۔ یہ بات کمشنر نہیں پوری حکومت کے ساتھ طاقت ور بیورو کریسی کو للکارنے کے مساوی لگتی ہے۔ اس لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ امکان یہ بھی ہے کہ کامران ٹیسوری ٹوٹتی ہوئی متحدہ سے تعلق سے انکار کرکے اسٹیبلشمنٹ کے وفادار بن جائیں اور مزید طاقت ور بن کر یہ موقف اختیار کرنے لگیں کہ ’’گورنر کسی پارٹی کا نہیں بلکہ صوبے کا ہوتا ہے‘‘۔ ویسے کامران ٹیسوری کی جو صلاحیتیں چند سال کی سیاسی زندگی میں سامنے آئی ہیں وہ یقینا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بھی پسند آئی ہوں گی۔ جبکہ اس سے کوئی انکار ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خاص ہوچکے ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں نامزد کرنے والی ’’متحدہ‘‘ سیاسی میدان میں یکجا ہونے کے باوجود اب تیزی سے ٹوٹ کر بکھرنے کی طرف بڑھتی لگ رہی ہے۔ خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو اس کے نو اتحادی پارٹیوں کے ساتھ بڑا دھچکا لگنے والا ہے۔ یہ تاثر اس لیے بھی عام ہورہا ہے کہ نو مجتمع شدہ ایم کیو ایم کو اس کے اپنے پرانے سرگرم لیڈرز تسلیم کرنے سے انکار کرکے اختلافی باتیں کرنے لگے ہیں، گو کہ بانی الطاف سے شروع ہونے والی بغاوت کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جسے بہت سارے لوگ اسی ایم کیو ایم کے دور میں کی گئی غلط کاریوں کا مکافات کہتے ہیں۔ یہ مکافات عمل کب تک چلے گا۔ دین دار حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے عروج کے دور 1990 تا 2013 جو کچھ عام انسانوں کے ساتھ منظم طور پر کیا گیا اس کے بدلے تک یہ مکافات اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری رہے گا۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے اور وہ انصاف کرنے والا ہے۔ رہی بات کامران ٹیسوری کے مستقبل کی تو وہ بحیثیت گورنر اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر جو کچھ کررہے اور عام افراد کے ضروریات کی اشیاء کے نرخ میں اضافے یا زائد قیمت فروخت کی جس طرح نشاندہی کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ گورنر کو یونیورسٹیز اور وفاقی اداروں سے متعلق اختیارات تفویض کرے تاکہ اہم عہدے کے ساتھ بھی انصاف ہوسکے۔