صوبوں میں عام انتخات  کا کیس: پی ٹی آئی اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی طلب

448

اسلام آباد:چیف جسٹس سپریم کورٹجسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کیس میں فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف اور حکومت سے پرامن رہنے کی یقین دہانی طلب کر لی، ججز نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا۔

 سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، آرٹیکل 254آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا،تفصیلات کے مطابق پیر کوچیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواستوں کی سماعتکی، بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں،عدالت میں الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان، تحریک انصاف کے وکلا علی ظفر اور بیرسٹر گوہر پیش ہوئے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ  نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق الیکشن کی تاریخ آگے کرنا درست نہیں ہے؟ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کرنا کیسے غلط ہے آگاہ کریں،پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم پر صدر نے 30اپریل کی تاریخ مقرر کی، گورنر خیبرپختونخوا نے حکم عدولی کرتے ہوئے تاریخ مقرر نہیں کی۔

 الیکشن کمیشن نے پنجاب میں الیکشن شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ منسوخ کر دی،علی ظفر نے کہا کہ عدالتی حکم کی 3مرتبہ عدولی کی گئی، الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا، دوسری خلاف ورزی 90دن کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کا مقصد انتخابات ہوتا ہے جو 90روز میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ الیکشن 90دن سے پانچ ماہ آگے کر دیئے جائیں، الیکشن کمیشن نے آئین کی کھلی خلاف ورزی کی ہے، عدالت نے 90روز سے تجاوز صرف انتخابی سرکل پورا کرنے کی اجازت دی تھی۔

 وزارت داخلہ اور دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عمل درآمد کرائے، جسٹس جمال نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد ہائی کورٹ کا کام ہے،علی ظفر نے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں، اس پر علی ظفر نے کہا کہ یہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کر سکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے، کیا یہ الیکشن کمیشن کے موقف میں تضاد نہیں ہے؟