اگر آٹا نہیں تو چلے جائو

580

پورے ملک میں پیٹ کی آگ لگی ہوئی تھی۔ لوگ فرقوں کی بنیاد پر نہیں روٹی کی بنیاد پر تقسیم ہورہے تھے۔ 1۔ فاقہ کش، 2۔ نیم فاقہ کش اور 3۔ پیٹ بھرے۔ اچھائی، نیکی، ہمدردی اور خوش اخلاقی تمام رویے روٹی سے مشروط ہوگئے تھے۔ شہروں کا بے فیض ماحول چھوڑ کر میں گائوں جارہا تھا۔ ماں نے روکنا چاہا۔ ’’جانے دو اسے‘‘ باپ نے روکھائی سے کہا۔ میرے ذہن میں بیوی کا ہیولا ابھرا، مجھے یقین تھا وہ مجھے ضرور روکے گی۔ بیوی کو شاید میرے خیالات کا احساس ہو گیا۔ وہ آگے بڑھی ’’جاتو رہے ہو لیکن جانے سے پہلے آٹا تو دے جائو۔ شکر ہے خدا کا ہم غریبوں کا خیال کرتے ہوئے حکومت مفت آٹا دے رہی ہے۔ بابا لینے گئے تھے۔ طویل قطار میں گھنٹوں کھڑے رہے پھر انہیں چکر آنے لگے اور وہ واپس آگئے۔ تم جوان اور طاقتور ہو۔ تمہارا فرض ہے کہ آٹے کا بندوبست کرو اور اگر تم آٹے کا بندوبست نہیں کرسکتے تو ہمیں تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔ جاتے ہو تو چلے جائو‘‘۔
ٹرین میں میرے برابر ایک ہٹیلا سا آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ وہ بڑے جوش سے موبائل فون پر کسی سے باتیں کررہا تھا ’’اگر یہی طریقے رہے تو یہ حکومت زیادہ دن نہیں چلے گی۔ الیکشن کے دوران ہم نے ان پر پیسہ اس لیے لگایا تھا کہ وہ اسمبلی میں جاکر ہمارے حق میں قانون سازی کریں گے۔ وہی قوانین بنائیں گے جن میں سرمایہ لگانے والوں کا فائدہ ہو۔ آج نہیں تو کل اسمبلی کو ہمارا مطالبہ ماننا ہی پڑے گا۔ انہیں سورج پر پابندی لگانا ہی ہوگی‘‘۔ جب وہ شخص بات ختم کرچکا تو میں نے پوچھا ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ سورج پر پابندی! کیا مطلب ہے اس کا؟‘‘۔ وہ شخص اسی طرح جوش سے بولا ’’میں ملک بھر میں پھیلے ان ہزاروں کارخانوں اور سرمایہ داروں کا نمائندہ ہوں جہاں موم بتیاں، ٹارچیں، بیٹریاں اور اسی نوع کا سامان بنتا ہے۔ سورج کی روشنی کی وجہ سے ان کارخانوں کی پیداوار آدھی سے بھی کم ہے اگر حکومت سورج پر پابندی لگادے، دن میں بھی اندھیرا ہو، تو سوچو موجودہ کارخانوں کی پیداوار دگنی ہوجائے گی۔ کتنے نئے کارخانے لگیں گے کتنے لوگوں کو روزگار ملے گا‘‘۔
’’لیکن ان لوگوں کا بھی تو سوچو جو زبردستی موم بتیاں، ٹارچیں، بیٹریاں اور یہ سب کچھ خریدنے پر مجبور ہوں گے‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’افراط زر کی وجہ سے ان کی آمدنیاں ویسے ہی بے وقعت ہوتی جارہی ہیں۔ اس پر یہ اضافی بوجھ! ظلم نہیں ہوگا؟‘‘ غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا وہ چیخا، ’’بیوقوف تم بھی صارف کا سوچتے ہو۔ دفع ہوجاؤ۔ تمہارے جیسے لوگوں کی نئے سماج کو ضرورت نہیں‘‘۔
کسی خرابی کی وجہ سے ٹرین کہیں راستے ہی میں رک گئی۔ میں وہیں اتر گیا۔ ذرا آگے بڑھاتو دیکھا چند لوگ جو شکل ہی سے بدمعاش لگ رہے تھے ایک شخص کو گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے۔ اس شخص کے ہاتھ میں کچھ پمفلٹ اور کتابچے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر پوچھا: ’’اس شخص کے ساتھ زبردستی کیوں کررہے ہو اس نے کیا کیا ہے؟‘‘ ایک بدمعاش نے میرے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: ’’جانتے ہو اس ذلیل نے کیا کیا ہے؟ حکومت نے سب لوگوں کو اس دیوار سے سرٹکرانے کی اجازت دی ہے جو ان کی خوشیوں میں حائل ہے۔ حکومت نے یقین دلایا ہے کہ اگر لوگ ذمے داری سے دیوار پر سر مارتے رہے ہر الیکشن میں ووٹ ڈالتے رہے تو جلد ہی یہ دیوار ٹوٹ جائے گی۔ تمہارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ لیکن اس حرامی کا کمینہ پن دیکھو یہ کہیں سے ایک سنگین لے آیا اور سنگین سے اس دیوارکو توڑنے لگا۔ اس کا گناہ ناقابل معافی ہے۔ یہ ہر وقت اسلامی نظام اور خلافت راشدہ کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ حکومت مذہبی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ تبلیغ کی وجہ سے لوگوں میں عبادات کا رجحان پیدا ہو، مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوئی ہوں، رمضان کا مہینہ لوگ پورے مذہبی جوش و خروش سے منا ئیں، حکومت ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ مسئلہ ان لوگوں سے پیدا ہوتا ہے جو دنیا بھر میں بچھائی ہوئی ہماری بساط کو منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے نظام کے مقابل اسلام کا نظام نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے نظام سے ٹکراتے ہیں ایسے لوگ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہیں‘‘۔
میں آگے بڑھا۔ دور دور تک کھیتوں اور باغات کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ بعض کھیت ایسے لگ رہے تھے جیسے ان پر توجہ نہ دی گئی ہو۔ انہیں جان بوجھ کربرباد کیا گیا ہو۔ بستی کے کنارے پر ایک چھوٹا سا مکان لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔ گھر کے باہر بہت سے لوگ جمع تھے۔ وہ دبے لفظوں میں باتیں کررہے تھے۔ ان کے لہجوں میں افسوس، نفرت اور غصہ تھا۔ ’’رحیم داد کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔ ایک شخص نے تاسف سے کہا دوسرے نے کہا: ’’چند دن پہلے ہی میں نے اسے سمجھایا تھا کہ ’’دیکھو رحیم داد! ایسا مت کرو لیکن وہ کسی کی بات سنتا ہے جو میری بات سنتا‘‘۔ آوازیں رفتہ رفتہ تیز ہوتی جارہی تھیں۔ کئی لوگ دوسرے لوگوں کو بھڑکا رہے تھے۔ ایک شخص غصے اور جھنجھلاہٹ سے چیخا: ’’اچھا ہوا وہ اسے اٹھا کر لے گئے جہنم میں جائے‘‘۔ ایک اور شخص پان جس کے دانت کھا گئے تھے نفرت سے بولا: ’’میں نے اسے کہا تھا کہ دیکھو کمپنی والوں کے کہنے پر ہم نے پچھلے سال پوری فصل برباد کردی تھی، کمپنی والوں نے ہمیں کتنا اچھا معاوضہ دیا تھا۔ کمپنی والوں کو ناراض نہیں کرنا چاہیے ورنہ سب بھوکے مرجائیں گے‘‘۔ ان کی آوازیں شور میں تبدیل ہوتی جارہی تھیں کہ ایک جھٹکے سے مکان کا دروازہ کھلا اور ایک عورت چیختی ہوئی باہر نکلی ’’دفع ہوجاؤ یہاں سے۔ تم سب یہاں کیوں کھڑے ہو۔ تم سب وہ کتے ہو جو پہلے بھیڑیے تھے میرا شوہر تم سب سے اچھا کاشت کار ہے وہ ایک کامیاب کاشت کار ہے۔ وہ تم لوگوں کی طرح کمپنی والوں کی خوشامد نہیں کرتا۔ وہ چاپلوس نہیں ہے وہ اول و آخر ایک کاشت کار ہے جو بھرپور فصل اگانے پر یقین رکھتا ہے‘‘۔
مجمع رفتہ رفتہ چھٹنے لگا۔ آخر میں وہ عورت اکیلی رہ گئی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ وہ بے حال ہورہی تھی۔ میں نے پوچھا ’’معاف کیجیے گا کیا ہوگیا آپ کے شوہر نے کیا جرم کیا تھا کہ وہ کمپنی جو پوری دنیا میں اجناس کا کاروبار کررہی ہے آپ کے شوہر کو اٹھا کر لے گئی۔ عورت نے آنکھیں اوپر کو اٹھائیں بولی: ’’وہ میرا شوہر ہے مجھے معلوم تھا یک دن ایسا ہی ہوگا۔ وہ اسے اٹھا کر لے جائیں گے کل رات وہ دروازہ توڑ کر گھر کے اندر داخل ہوئے اس پر بے پناہ تشدد کیا اور پھر بے دردی سے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے‘‘۔ ’’لیکن آپ کے شوہر نے ایسا کیا کیا تھا وہ کیوں آپ کے شوہر کو اٹھا کر لے گئے‘‘۔ عورت غصے سے بولی: ’’آپ کو معلوم ہے گندم کی کاشت پندرہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضے میں ہے جو اپنا نوے فی صد سے زیادہ منافع برقرار رکھنے کے لیے گندم کی پیداوار میں کمی چاہتی ہیں۔ میرے شوہر کا جرم یہ تھا کہ وہ ہرسال گندم کی شاندار فصل اگاتا اور بازار میں جاکر کم قیمت پر بیچ دیتا۔ میرے شوہر کے اس عمل سے گندم کی قلت کا خاتمہ اور قیمتوں میں کمی آتی جارہی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اتنا بڑا جرم کیسے معاف کیا جاسکتا تھا‘‘۔