وفا دار ’’کتے‘‘ نکلے

626

دیکھا گیا ہے کہ جن پرتکیہ کر لیا جاتا ہے وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ صرف آپ کا ’’کتا‘‘ وفا دار ہو، کبھی کبھی آپ کا ’’وفادار‘‘ بھی ’’کتا‘‘ نکل سکتا ہے۔ ایوب خان صاحب بھی کسی کے وفا دار تھے، ’’ڈیش ڈیش‘‘ ثابت ہوئے۔ ان کو یحییٰ خان صاحب پر بہت اعتماد تھا۔ سو، یحییٰ خان صاحب نے ’’وفاداری‘‘ نبھائی۔ ذوالفقارعلی بھٹو بہت زیرک انسان سمجھے جاتے تھے۔ بہت علم تھا، بہت ذہانت تھی (یہ دونوں صفات ابلیس میں بھی بے پناہ تھیں)۔
بہت سارے سورماؤں کے بیچ ایک ’’قالَ قالَ‘‘ کو چن کر یہ سمجھ لیا کہ بس ’’اللہ اللہ‘‘ کرنے والا ہے۔ اس کا ’’حلوہ مانڈا‘‘ اور میرا ’’کرسی کرسی‘‘ والا وظیفہ چلتا رہے گا۔ وظیفہ تو نہیں چل سکا البتہ ’’وفادار‘‘ گردن کی لمبائی کئی انچ لمبی کرگیا۔
صدر مملکت، عزت مآب ’’اسحاق‘‘ نے تو ’’وفاداری‘‘ کی حد ہی کردی۔ ایک وزیر ِ اعظم کو ایک ہی ’’دورانیے‘‘ میں دو مرتبہ کاٹ کھایا۔ ایک اور ’’صدر‘‘ صاحب آئے۔ حافظ بھی تھے اور قاری بھی۔ کیوں کہ مدرسہ کے فارغ التحصیل بھی تھے اس لیے ’’وفادار‘‘ ہونے کا سبق بہت پکا یاد تھا۔ خاتون ہی کو ’’بھنبھوڑ‘‘ ڈالا۔
ایک صاحب کو اللہ نے پھر عزت بخشی، بہت نیچے تک جھانک کر ایک ’’وردی‘‘ کے گردو غبار کو اس امید پر صاف ستھرا کر کے ’’اوپر‘‘ اٹھایا کہ ’’کتا‘‘ بن کر رہے گا وہ بھی کم بخت ’’وفادار‘‘ بن بیٹھا۔
وہی محترم جناب شریف، ایک مرتبہ پھر ’’شریف‘‘ چن کر پچھتائے جنہوں نے ’’وفاداروں‘‘ سے بڑھ کر ’’بھنبھوڑ‘‘ ڈالا۔ بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے نیب کا سربراہ بنایا۔ مگر… وہ بھی ’’وفادار‘‘ ثابت ہو رہا ہے۔
سینیٹ کے الیکشن کے نتائج اور منتخب نمائندوں کے رویے سب کے سامنے ہیں۔ سب اچھی طرح دیکھ رہے ہیں کہ جو جو بھی وفادار ہیں ’’کتے‘‘ ثابت ہو رہے ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف نے افتخار چودھری کی عدالت کو توڑ دیا تھا۔ فیصلہ غلط تھا یا صحیح، یہ بحث الگ ہے۔ بحالی کی تحریک چلی اور کچھ اس انداز میں چلی جیسے کسی مزدور یونین کے کسی عہدیدار کو انتظامیہ ایک نوٹس پر نکال باہر کردے تو مزدور سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں۔ ہنگامے پھوٹ پڑیں تو انتظامیہ کا گھیراؤ بھی ہوتا ہے اور کبھی کبھی یہ گھیراؤ، جلاؤ کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ ایسا ہی ہوا۔ گھیراؤ بھی ہوا اور جلاؤ بھی اور اس افراتفری میں کچھ جانیں بھی گئیں۔ بجائے ’’منصفی‘‘ بحال ہونے کے ’’منصف‘‘ بحال ہو گئے۔ تحریک کے روح رواں مزدور طبقہ نہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ اس وقت کی تحریک انصاف بہت مقبول جماعت نہیں تھی اس لیے میں اس تحریک کی بڑی پارٹیوں میں ’’ن‘‘ اور پی پی پی کو شمار کرتا ہوں۔ جج بحال ہو گئے۔ مگر ہوایہ کہ انہیں ججوں نے پہلے پی پی پی کو ’’بھنبھوڑا‘‘ اور پھر مسلم لیگ ن سے ’’وفاداریاں‘‘ کرگزرے۔
تحریکِ انصاف اچانک مقبول ہو گئی یا ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ بنا کر مقبول بنائی گئی۔ اس تحریک نے بھی ایک جرنیل کو بہت وفادار سمجھا لیکن اس نے تو وہ ’’وفاداری‘‘ نبھائی کہ تحریک ِ انصاف کے سر دھڑ چکرا کر رکھ دیے۔ اس مرتبہ کا ’’ڈیش ڈیش‘‘ شاید کچھ باؤلے پن کا شکار بھی تھا اس لیے کچھ نہیں کہا جا سکتا اس کا زہر کیا اثر دکھائے۔ اُس جرنیل نے جاتے جاتے پہلے ’’ن‘‘ سمیت تحریک انصاف کی تمام پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا، اب معلوم نہیں کہ یہ بھنبھوڑنے کا نتیجہ تھا یا وللہ عالم بالصواب، وہ سب اتنے پاگل بنے کہ تحریک ِ انصاف کی ساری ناقص کارکردگی کا طوق اپنی گردن میں بصد خوشی ڈال لیا۔ اسی جرنیل نے دوسرا کام یہ کیا کہ ’’حافظ‘‘ کو اپنا عہدہ سپرد کرکے خود پاکستان چھوڑ چھاڑ ایک محفوظ ملک میں اپنا اور اپنی پوری فیملی کا ٹھکانہ تلاش کر لیا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ جن کی وجہ سے ہم سب پاکستانی اور پاکستان کی سرحدیں محفوظ سمجھی جاتی ہیں نہ جانے وہ سب کے سب ’’محفوظ‘‘ ممالک کی جانب کیوں ہجرت کر جاتے ہیں جبکہ پاکستانیوں اور پاکستان کو محفوظ رکھنے والے سب کے سب پاکستان ہی میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ بات ان پر بے تحاشا اعتماد کی جانب اشارہ کر رہی ہوتی ہے یا وہ تمام از خود پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت کرتے کرتے اتنا تھک چکے ہوتے ہیں کہ ان کا رواں رواں یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ ’’میں بوڑھا ہو چکا ہوں اب مجھے آرام کرنے دے‘‘۔
سیدنا علیؓ کا فرمان ہے ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘۔ اس فرمان میں بڑی گہری بات کہی گئی۔ شرکا فتنہ ہر دو طرح پھیل سکتا ہے۔ جس پر احسان کیا جائے وہ متشکر یا ممنون ہونے کے بجائے آپ کے لیے جگہ جگہ پریشانی کا سبب بنے۔ یہ تو چور ہے، سب حلال و حرام کرتا ہے، نہ جانے اس کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے مال کہاں سے آتا ہے، نمبر ون دو نمبری ہے وغیرہ وغیرہ۔ یعنی آپ نے ترس کیا کھایا جان عذاب میں ڈال لی۔ دوسرا پہلو اور بھی خطر ناک ہے جو آپ کے ایمان ہی کو بگاڑ کر رکھ دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ بندہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا ہے اور ہر ایک سے آپ کی تعریف کے پل باندھنا شروع کر دیتا ہے۔ کیا بات ہے صاحب کی، بہت مہربان ہیں، سخاوت تو ان پر ختم ہے، کسی کے غم پر رو پڑتے ہیں،
مانگو تو انکار نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں، موم کی طرح پگھل جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تعریف و ستائش کا یہ انداز، ہر ہر موڑ پر لوگوں کا عقیدت سے ملنا، جھک جھک کر سلام کرنا جیسا عمل آپ میں تفخر اور بڑائی (غرور) پیدا کر سکتا ہے۔ شیطان غرور کرکے ہی تو ملعون ہوا تھا سو آپ بھی تباہ و برباد ہو سکتے ہیں۔
آپ دیکھتے جائیں، جس نے جس جس پر بھی مہربانی کی ہوتی ہے، جس کو بھی وہ اپنا وفادار سمجھتا ہے وہ ’’کتا‘‘ ہی ثابت ہوتا ہے۔ ماضی کے حوالے سے میر جعفر اور میر صادق کو دیکھ لیں اور حال کے لحاظ سے کراچی کی سیاست کو سامنے رکھ لیں۔ جن کے پیروں میں ’’ہوائی‘‘ چپلیں ہوا کرتی تھیں وہ اپنے اپنے حصے کی ’’وفاداریاں‘‘ کس خوبی سے کاٹ کاٹ اور بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر نبھا رہے ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے ’’یہ ضروری نہیں کہ صرف آپ کا کتا ہی وفا دار ہو، کبھی کبھی آپ کا وفادار بھی کتا نکل سکتا ہے‘‘۔