دل بے رحم

380

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق بار ہا کہہ چکے ہیں کہ جماعت اسلامی ملک میں عدل و انصاف کی حکمرانی چاہتی ہے۔ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سود اور کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ مگر سیاسی ٹرائیکا اسلامی نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ اس کے اثاثے اور عشرت کدے اسی نظام کے بدولت ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل اور مصائب کی وجہ اسلامی نظام سے بے وفائی ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمانوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد اسلامی حکومت قائم کی جائے گی اور شریعت کے خلاف کوئی قانون نافذ نہیں کیا جائے گا۔ اگر اس یقین دہانی پر عمل کیا جاتا، قرآن و سنت کی حکمرانی قائم کی جاتے تو سقوط ڈھاکا کا سانحہ قوم کا مقدر نہ بنتا۔ بنگلا دیش کبھی وجود میں نہ آتا۔ فوجی آمروں اور نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی ملی بھگت نے ملک کو افلاس و غربت کی دلدل میں دھنسا دیا ہے۔ عدل و انصاف کی حکمرانی، بدعنوانی کاخاتمہ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ عوام کو سر چھپانے کے لیے جھونپڑی بھی بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے مگر حکمرانوں کے لیے عشرت کدوں کی کوئی کمی نہیں۔ حکمران طبقے کو لگژی گاڑیاں، پٹرول، بجلی اور دیگر سہولتیں مفت نہ دی جائیں تو ملک کی معیشت آئی ایم ایف کی رحم و کرم پر نہ ہوتی۔
جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو معیشت کے استحکام کے لیے میثاق معیشت پر توجہ دی جائے گی۔ سودی نظام کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ خورو نوش کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے گا کہ اس کے بغیر عوام خوشحال نہیں ہو سکتی۔ موجودہ نظام ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے کہ امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کو احساس ہے کہ عوام کو دال روٹی کی فکر سے نجات مل گئی تو ان کی عیاشیاں ختم ہو جائیں گی۔ جماعت اسلامی برسر اقتدار آئی تو جنرل سیلز ٹیکس پانچ فی صد سے کم کر دیا جائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ اور حکومت کو جواب دہ ہوگا۔ اپنی مرضی اور اپنے مفادات کو تحفظات فراہم کرنے کے اختیارات ختم کر دیے جائیں گے۔ جب تک غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کر کے سرکاری اداروں میں مال مفت دل بے رحم کا رویہ ختم نہیں کیا جاتا، معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جائے گی۔
شنید ہے کہ آئی ایم ایف نے قومی اداروں کی نجکاری یا ان کے فروخت کی شرط بھی لگا دی ہے۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اداروں کو فروخت کرنے یا نجکاری کرنے کے بجائے منافع بخش بنانے کے لیے قابل اور اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے۔ اتفاق فاؤنڈری اور ایسے دیگر ادارے منافع بخش ہو سکتے ہیں اور اپنے مالکان کی دولت میں اضافہ کرنے کا باعث بن سکتے ہیں تو قومی ادارے کیوں نقصان کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس کی واحد وجہ سیاسی بھرتیاں ہیں۔ ان اداروں سے اتنا منافع نہیں کمایا جاتا جتنا ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں دیا جاتا ہے۔
امیر جماعت محترم سراج الحق نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں پچاس فی صد کمی کر دی جائے۔ تاکہ عوام اپنے اہل خانہ کو پیٹ بھر کر کھلانے کے قابل ہو سکے۔ کچھ دنوں قبل صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کا بہت چرچا رہا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ جب کہ تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ الیکشن کروانا حکومت کی مجبوری اور ہماری ذمے داری ہے۔ کیونکہ الیکشن کا انعقاد آئینی اور قانونی تقاضا ہے اور اب تو عدلیہ نے بھی حکم دے دیا ہے کہ الیکشن کروایا جائے۔ مگر تالیوں کی گونج میں لوگ یہ بھول گئے کہ عدلیہ بلدیاتی الیکشن کا حکم بھی دے چکی ہے مگر حکومت عدالتی حکم کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے میں جس مہارت کا مظاہرہ کرتی ہے وہ عدلیہ کے لیے باعث حیرت ہی رہا ہے۔
امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کا پنجاب میں انتخابات ملتوی کروانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ سنا ہے کہ عدلیہ نے قبول ہے، قبول ہے کا ورد شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کو تجویز دی ہے کہ ملک میں ایک ہی روز انتخابات کروائے جائیں تاکہ سیاسی بے چینی اور بحران ختم ہو۔ سراج الحق نے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے مرکزی اور سندھ اسمبلی کو تحلیل کر کے نگران حکومتیں قائم کی جائیں اور عام انتخابات کے لیے جمہوریت کی بالادستی کے قیام کے لیے تمام با اختیار شخصیات سے مذاکرات کیے جائیں۔ سیاسی بحران نے عوام کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ ایک درجن سے زائد سیاسی جماعتوں کی حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن بلکہ شرمناک ہے۔ یہ لوگ عوام کو ریلیف دینے کے اہل ہی نہیں۔ یہ صرف اور صرف عشر ت گہے خسرو میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھنے کے شوقین ہیں۔
یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ جو بھی سیاسی جماعت ایوان اقتدار میں گھستی ہے سیاست کو گھسنے لگتی ہے۔ ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے جو اختیارات کے لیے طوالت کا باعث بنے۔ کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد الیکشن کروا دیے جاتے تو سیاسی بحران پیدا نہ ہوتا نہ عوام کو مہنگائی کے سونامی میں غوطے کھانے پڑتے۔ المیہ یہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو سیاسی کامیابی سمجھنے کے بجائے اپنی کامیابی سمجھ لیا گیا اور سمجھ کے اس پھیر نے عوام کو بے حال کر دیا۔