جس کا ذکر سارے فسانے میں نہ تھا

630

بہاولپور کے نامور سیاست دان، ممتاز شاعر و ادیب محترم تابش الوریٰ ہر ماہ اپنی رہائش گاہ پر ادبی محفل پڑاؤ کا اہتمام بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ یہ تقریب کئی عشروں سے منعقد ہو رہی ہے۔ قابل ستائش بات یہ ہے کہ تابش صاحب بہاولپور میں ہوں یا بہاولپور سے باہر، ادبی پڑاؤ کبھی پڑاؤ میں مبتلا نہیں ہوا۔ البتہ تابش صاحب خود سیاسی پڑاؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ شاید حسن مآب جمہوریت اپنی آب و تاب کھو چکی ہے۔ سو، شاعری اور صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے۔ یوں بھی موصوف سیاست دان کے بجائے صحافی کہلانا پسند کرتے ہیں۔ اس ماہ ادبی پڑاؤ کے مہمان خصوصی پروفیسر زوار حسین اور سابق ڈائریکٹر آرٹ کونسل تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا اور پھر حسب دستور تابش الوریٰ نے حاضرین کو صدارتی خطبے سے نوازا۔ انہوں نے ملک کے سیاسی حالات اور سیاست دانوں کے انداز فکر پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ان کی رائے کے مطابق جمہوریت کی ناکامی اور سیاسی فقدان کی اہم اور بڑی وجہ فوج کی طویل حکمرانی ہے۔ ان کے ارشاد گرامی کے مطابق ملک میں پہلا مارشل لا جنرل ایوب خان نے لگایا تھا۔ تاریخ کو موم کی ناک بنا دیا جائے تو حکمران طبقات کی خانہ زاد بن جاتی ہے۔ موصوف کے فرمان کے مطابق جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا کر جمہوریت کو اتنا نڈھال اور ناتواں کر دیا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے بالکل قابل بھی نہ رہی۔ جب بھی جمہوریت کو پرواز کا موقع ملامارشل لا لگا کر اس کے پر کتر دیے گئے۔ حاضرین کا خیال تھا کہ تابش الوریٰ مارشل لا کے اسباب اور سیاست دانوں کی نااہلیت پر اپنی رائے سے نوازیں گے۔ مگر وہ ایک کے بعد دوسرے، دوسرے کے بعد تیسرے اور چوتھے مارشل لا کے جبر و استبداد کی داستان سناتے رہے اور حاضرین کو یہ تسلیم کرنا ہی پڑا کہ سیاست دان سے بڑا داستان گو کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کے ارشاد گرامی کے مطابق پاکستان میں پہلا مارشل لا جنرل ایوب نے لگایا تھا مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پہلا مارشل لا پاکستان کے پہلے صدر مملکت اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ تابش الوریٰ کی داستان گوئی کے بعد ہم نے اپنا کالم پیش دستی اور بالا دستی پیش کیا۔ جسے بہت سراہا گیا۔ مگر موصوف نے کہا کہ ادبی پڑاؤ میں مختلف مکاتب فکر اور مختلف سیاست دان اور سیاسی کارکن شامل ہوتے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ ناصر حسنی اپنے کالم میں عمران خان کا حوالہ نہ دیتے۔ تابش الوریٰ کی فسانہ طرازی سن کر ظہور آثم نے کہا اس موقع پر مجھے ایک شعر یاد آ رہا ہے۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
اس تناظر میں دل آزاری کی بات مارو گٹھنا پھوٹے آنکھ والی بات ہے۔ اگر اسی طرح بات سے بات نکلتی رہی تو ہم شیطان کی آنت کی لپیٹ میں آ جائیں گے اور گھر جانا مشکل ہو جائے گا۔ قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ ناصر حسنی عمران خان کا حوالہ نہ دیتے تو کالم بے معنی ہو جاتا، کسی کی سمجھ میں نہ آتا۔ من حیث القوم ہم اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں اور یہ محبت عقیدت کی حد تک ہے۔ تابش صاحب نے دل کھول کر فوج پر تنقید کی ہے۔ ملک کے تمام مسائل اور مصائب کا ذمے دار جرنیلوں کو قرار دیا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ موصوف جس بات پر معترض ہیں خود اس کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ناصر حسنی کا کالم کسی سیاسی جماعت کی کارکردگی یا اس کے کرتوتوں کا احوال نہ تھا۔ کیونکہ کالم عدلیہ کی کارگزاری اور کارکردگی سے متعلق تھا۔ عدالت عظمیٰ ہر معاملے میں از خود کارروائی کرنے کے شوق میں اس حد تک مبتلا ہو چکی ہے کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی کہ اس کی پیش دستی اس کی بالا دستی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ یوں بھی جس ملک کے نظام عدل میں پیشی منسوخ کرنا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسانا معمول کی بات ہو وہاں حکمران طبقے سے وابستہ کسی شخص کو قانون سے بالا تر قرار دینا قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
عدالتی نظام پر غور کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ نظام عدل کو نظام سقہ بنا دیا گیا ہے جو اپنا ہی سکہ چلا نا چاہتا ہے۔ عدلیہ کو اپنی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمے داریوں پر بہت ناز ہے۔ مگر جب کسی با اثر شخصیت کو بلاتی ہے اور وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے دو تین ہزار کارکن لے کر آتا ہے تو جسٹس صاحبان کی سانس رکنے لگتی ہے، میزان عدل کے پلڑے اوپر نیچے ہونے لگتے ہیں۔ عمران خان رکن اسمبلی تھے، اس کے باوجود سات نشستوں سے حصہ لیا۔ اور ساتوں نشستیں بھی جیت لیں۔ جو ایک غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر آئینی عمل تھا مگر عدالت کی آنکھوں کے سامنے عمران خان کی مقبولیت سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ قوم کا وقت ضائع ہوا اور قومی خزانہ اپنی جمع پونجی ہار گیا۔
بھارت ہمارا قریبی ہمسایہ ہے۔ مگر وہ اپنا سایہ بھی ہم سے چھپا کر رکھتا ہے۔ اور ہم اس کے سائے کو کسی آسیب کے سائے کی طرح سمجھتے ہیں۔ ہماری نظر میں اس کی اچھی باتیں بھی قابل تحسین نہیں۔ اس کی ہر اچھی بات بری لگتی ہے۔ بھارت میں کوئی بھی سیاست دان قومی خزانے کو اماں جان کا دودھ یا اپنا جیب خرچ نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کوئی سیاست دان ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب نہیں لڑ سکتا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جب یہ بات چیف جسٹس صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی گئی تو عزت مآب چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی دو نشستوں سے حصہ لیا تھا اس لیے عمران خان کا ایک سے زائد نشستوں میں حصہ لینا کیوں اور کیسے قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ کاش ہم یہ کہنے کی جرأت کر سکتے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو مصلوب کر دیا گیا تھا۔ اسی لیے کسی دوسرے سیاست دان کو پھانسی پر لٹکانا قابل اعتراض نہیں ہو سکتا۔