مہنگائی اور قرض کی دلدل، عوام بدحال

1452

حکمرانوں کی نااہلی اور بڑھتے ہوئے ملکی اور غیر ملکی قرضوں نے معیشت کو تباہ کیا ہوا ہے، بے سمت اور غلط معاشی فیصلوں اور گورننس کے متعدد مسائل کی وجہ سے اقتصادی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے، مہنگائی اور قرض کی دلدل میں پھنسے عوام بدحال ہیں۔ اس سے زیادہ بدترین صورت حال اور کیا ہوسکتی ہے کہ رمضان میں بھی گیس اور بجلی دستیاب نہیں ہے۔ حکمران تو بھکاری ہیں انہوں نے قوم کو بھی لمبی لمبی قطاروں میں لگا دیا ہے۔ اس وقت تمام حکومتی دعووں کے باوجود کچھ بہتر نہیں ہورہا ہے، مہنگائی معیشت کی خاموش قاتل ہے جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور یہ روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے، ماہ رمضان میں بھی مہنگائی بڑھتی جاری ہے جس کی ایک وجہ جہاں کمزور معیشت ہے وہاں اس کی ایک وجہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ بھی ہے۔ ادارہ شماریات کی جانب سے جاری ہفتہ وار پورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے مہنگائی میں8.1 فی صد کے بڑے اضافہ کے ساتھ سالانہ بنیاد پر مہنگائی .46 65 فی صد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی۔ ہفتہ وار پورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے میں 26 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ، 12 میں کمی اور 13 کی قیمتوں میں استحکام رہا، ایک ہفتے میں ٹماٹرکی قیمت میں 71.7 فی صد، آٹا 42.3 فی صد، آلو11.4 فی صد، کیلے 11 فی صد، چائے کی پتی 7.3 فی صد مہنگی ہوگئی، ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گھی، تازہ دودھ، دہی، مٹن، چاول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں اور لوگوں نے یا تو وہ خریدنی چھوڑ دی ہیں یا لوگ ان کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی رفتار کی وجہ سے خود کشیاں کرنے پرمجبور ہو گئے ہیں اور لوٹ مار میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہر دوسرا تیسرا شخص لٹیرا ہے۔ اس وقت اجرتیں اور تنخواہیں بالکل بھی مہنگائی کے حساب سے نہیں بڑھ رہیں، فیکٹریاں بند ہورہی ہیں جو کھلی ہیں وہاں بھی خام مال نہ ہونے کی وجہ سے کام نہیں ہورہا ہے اور ملازمین کو اب ہفتے میں تین تین دن چھٹیاں دی جارہی ہیں۔ بے روزگاری میں مزید اضافے کا خدشہ ہے کیونکہ کمپنیاں اور ادارے اپنے ملازمین کو رکھنے کے لیے ضروری اجرت ادا کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت کیا کررہی ہے جس کا واضح جواب یہی ہے کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے اور اس سے کچھ نہیں سنبھل پارہا ہے۔ بس صرف عوام کو اعداد وشمار کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک طرف جہاں وزیر خزانہ روزانہ کی بنیاد پر نہ سمجھ میں آنے والے اعداد وشمار دے رہے اور روزانہ یہ بتارہے ہیں کہ کہاں کہاں سے قرضہ مل رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے لیکن حقیقت یہ ہے حکومت قرض کے سراب میں پھنسی ہوئی ہے اور اس نے تاحال اپنی گورننس اور اخراجات کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے اور پھر آئی ایم ایف نے بھی اپنا شکنجہ کسا ہوا ہے اور آئی ایم ایف نے پاکستان سے مہینوں سے جاری مذاکرات کے حوالے سے کہا ہے کہ پیکیج کی تکمیل کے لیے شراکت دار ممالک کی یقین دہانی ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے یہ شرط بڑی مایوسی کا باعث ہے، کیونکہ امید یہ تھی کہ آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل پہلے ہوگی اور اس کے بعد نہ صرف 2.1 ارب ڈالر آئیں گے اور اس کے ساتھ دوست ممالک سے بھی قرض کی فراہمی ہوگی۔ لیکن آئی ایم ایف کی عہدیدار نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ پاکستان کو معاہدے کی تکمیل کے لیے ان یقین دہانیوں کی ضرورت ہوگی۔ اس سے قبل پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے کہا تھا کہ حکومت نے ایندھن کی قیمتوں کے تعین کی حالیہ اسکیم کے بارے میں مشاورت نہیں کی اور تصدیق کیا تھا کہ اس اسکیم سمیت چند دیگر نکات طے ہونے کے بعد عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔ اس ساری صورت میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی موجودہ اتحادی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو گئی، اس نے گزشتہ 11ماہ میں ہر شعبہ میں تباہی مچائی، یہ پی ٹی آئی کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، اس وقت ملک میں ساری کارروائی آئی ایم ایف کے بھاشن کے مطابق ہو رہی ہے، رمضان کے مقدس مہینے میں بھی حکومت عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دے سکی، غریبوں کی آٹے کی لائنوں میں شہادتیں ہو رہی ہیں۔ امیر جماعت کا صائب مطالبہ ہے کہ حکومت اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں 50فی صد کمی کرے، بجلی اور گیس کا ٹیرف کم کیا جائے۔ حکومت کو مہنگائی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات لیتے ہوئے ایسی پالیسیاں لاگو کرنا ہوں گی کہ جن سے لوگوں کو ریلیف مل سکے، موثر پالیسیوں کے ذریعے ہی حکومت مہنگائی کو کم کر سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ لوگ اپنا معیار زندگی برقرار رکھ سکیں ورنہ آنے والا وقت ملک کو انارکی طرف لے جائے گا اور پھر حالات کو قابو میں کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔