انتخابات 2023 اور جماعت اسلامی کا منشور

844

منشور سیاسی جماعتوں کے وہ منصوبے، پروگرام اور وسیع تر پالیسی موقف ہیں جن پر وہ عمل کرنے کا وعدہ کرتی ہیں تاکہ انتخابات میں وہ ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں آ سکیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں عام طور پر اپنے منشور انتخابات والے سال کے دوران جاری کرتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کی دستاویز ہے جس کی روشنی میں برسراقتدار آنے پر اس جماعت کی کارکردگی کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ جمہوری سیاست میں رائے دہندگان توقع رکھتے ہیں کہ سیاسی جماعت اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کرے کیونکہ وہ ان پروگراموں اور پالیسیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جنہیں اقتدار میں آنے پر یہ جماعت عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ ان کے سامنے ایک باضابطہ منصوبہ رکھا جائے اور اسے عملی جامہ پہنانے کا عہد کیا جائے جس کی روشنی میں وہ اس جماعت کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کر سکیں۔ اس لیے منشور محض لفاظی اور بڑی بڑی باتوں کا نام نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور باضابطہ عہد پر مبنی دستاویز ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت اور جیت میں اس کے انتخابی منشور کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ منشور دیکھ کر ووٹ دینا چاہیے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابات، ووٹ اور منشور کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ عوام آنکھ بند کرکے نہ ووٹ کا استعمال کرتے ہیں نہ سیاسی پارٹیوں کے منشور کو پڑھے بغیر کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام میں تعلیم کی شرح سو فی صد ہے اور عوام میں سماجی اور سیاسی شعور موجود ہے۔ اگرچہ کئی پسماندہ ملکوں میں بھی شرح تعلیم 100 فی صد کے لگ بھگ ہے لیکن ان ملکوں کے عوام سماجی اور سیاسی شعور سے محروم ہیں اور اشرافیہ نے مختلف حوالوں سے انہیں اتنے طبقوں میں بانٹ کر رکھ دیا ہے کہ ان کی اجتماعی طاقت پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ہے اور وہ انتخابات کے موقع پر پارٹیوں کے منشور کو دیکھے بغیر محض ذات برادری، قومیتوں، نسل و زبان کے حوالوں سے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے انتخابی نظام میں پروپیگنڈے کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ الیکشن میں عموماً
اشرافیہ کے سپوت ہی حصہ لیتے ہیں کیونکہ الیکشن لڑنے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے اور دال روٹی پر گزارا کرنے والے الیکشن میں حصہ لینے کے تصور ہی سے محروم ہوتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت دولت پر ہی کھڑی ہے چونکہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں قانون ساز اداروں میں پہنچنے کے لیے کروڑوں روپوں کی ضرورت ہوتی ہے سو غریب طبقات اس نظام میں انتخابات لڑنے کی اہلیت ہی سے محروم ہوتے ہیں۔ پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ملکوں ہی میں نہیں ہوتا بلکہ یہاں شرح تعلیم بھی دیگر پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اس سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ ہم اور بہت ساری تقسیم کے علاوہ 72 فرقوں میں بھی بٹے ہوئے ہیں اس پر قیامت یہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی جاگیردارانہ نظام کی پیدا کردہ شخصیت پرستی میں دفن ہیں اسی شخصیت پرستی میں ہم اس قدر اندھے ہوگئے ہیں کہ کسی پارٹی کے منشور کی طرف تو ہماری نظر جاتی ہی نہیں بلکہ ہماری نظروں میں اشرافیائی شاہوں اور شہزادوں کے سرخ و سفید چہرے اور ان کی کروڑوں قیمت کی چمکتی دمکتی گاڑیوں کو ہی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے 22 کروڑ عوام انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے منشور کو دیکھے بغیر شخصیتوں کی بنیاد پر ذات برادری زبان اور قومیت کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آنے والے پانچ سال بھی وہ اشرافیہ کی غلامی میں گزار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے سرمایہ دارانہ انتخابی نظام میں ایسی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس کی بدولت نچلے طبقات کے اہل اور تعلیم یافتہ لوگ انتخاب لڑسکیں، اس کے لیے ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کروڑوں کے سرمائے کی ضرورت نہ ہو، صرف صلاحیتوں یعنی میرٹ پر عوام انتخابات میں حصہ لے سکیں اور ووٹر میرٹ ہی کی بنیاد پر اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ ہمارے ملک میں واحد جماعت اسلامی ہے جو ان تمام خوبیوں سے مالا مال ہے میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں اور اشرافیہ، جاگیرداری اور سرمایہ داری کی بیماریوں سے پاک ہے۔
جماعت اسلامی نے جدید بنیادوں پر دور حاضر کی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی، فلاحی اور جمہوری بنیادوں پر انتخابی منشور کا اعلان کردیا ہے۔ یہ منشور 5 سال کے لیے ہے۔ منشور کا ٹائٹل پاکستان کو اسلامی جمہوری، خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے، دستور پاکستان کے مطابق قرآن و سنت کی بالادستی قائم کی جائے گی۔ جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ تمام بین الاقوامی معاہدوں کی حتمی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے گی، آرٹیکل 62، 63 کے تحت قومی اسمبلی و سینیٹ ارکان کے لیے آزاد کمیشن بنایا جائے گا، اردو کو سرکاری زبان کے طور پر لاگو کیا جائے گا، میڈیا کو اسلامی تہذیب و ثقافت جیسا بنانے کی ترغیب دی جائے گی۔ مضبوط معیشت اور گورننس منشور کا حصہ ہیں، میثاقِ معیشت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو پلان میں شامل کریں گے، ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کر کے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے گا، تمام سرکاری افسران کو مراعات اور ٹیکس کی چھوٹ ختم کر دی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو کرپشن فری کرنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کریں گے، قومی اداروں کو منافع بخش بنایا جائے گا، زرعی ٹیکس میں چھوٹ دیں گے، رئیل اسٹیٹ اتھارٹی بنائی جائے گی، حقوق دو گوادر تحریک اور حکومت ِ بلوچستان میں تحریری معاہدہ کیا جائے گا۔ معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سودی نظام کو ختم کیا جائے گا، آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضرورت نہیں ہے، 50 سال بعد بھی پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی یہ معیشت درست نہیں کر سکی، اسد عمر، اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل، شوکت ترین آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے ماہر ہیں، ہم پاکستان کو کرپشن فری بنائیں گے، جماعت اسلامی کے پاس مختلف شعبہ زندگی کے 1200 سے زائد ماہرین موجود ہیں، اردو زبان میں مقابلے کا امتحان بنائیں گے۔ وطن عزیز کا دفاع مضبوط بنیادوں پر ہونا چاہیے جس کے لیے ملک جوہری صلاحیتوں سے ناقابل تسخیر دفاع بنایا جائے گا۔ پاکستان کی فوج کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جائے گا۔ ملک کے بزرگوں کے لیے ہر سال مہنگائی کی شرح سے پنشن میں اضافہ کیا جائے گا۔ ڈیٹا سائنسز اور مصنوعی ذہانت کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں جنگلات سے حاصل کردہ آمدن اہم ہے اس کو وسیع کیا جائے گا۔ سیاحت کو فروغ دیا جائے گا جس سے روزگار اور آمدن میں اضافہ ہوگا۔ واپڈا اور کے الیکٹرک کی تعمیر نو کی جائے گی جس سے توانائی کے شعبے میں ترقی کے راستے کھلیں گے۔ نیب اور ایف آئی اے کی تعمیر نو کی جائے گی جس سے کرپشن کو کنٹرول کیا جائے گا۔ قومی لیبر پالیسی بنائی جائے گی جس سے مزدور کی تنخواہ مہنگائی کے حساب سے بڑھائی جائے گی۔ اور ملازمت مستقل بنیادوں پر کی جائے گی۔ کسانوں کا قرضوں پر سود ختم کیا جائے گا، اور کم قیمتوں پر ڈیزل، کھاد اور بیج فراہم کیا جائے گا۔
اس منشور کی اہم بات یہ ہے کہ ایک دینی اور سیاسی جماعت ہونے کی حیثیت سے جماعت اسلامی نے خواتین کے حقوق پر واضح موقف اپنایا ہے جس میں خواتین کی میٹرک تک تعلیم، وارثت میں حصے اور پبلک سروس کے امتحانات میں علٰیحدہ سے ڈسک لگانے اور جہیز کی لعنت کو ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ نوجوان پاکستان کی آبادی کا 56فی صد ہیں ان کی تعلیم، روزگار، طلبہ یونین پر پابندی کے خاتمے پر زور دیا ہے، کھیلوں کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کے علٰیحدہ میدان بنانے کا اعلان کیا ہے۔
انتخاب سب کے لیے
صحت سب کے لیے
امن سب کے لیے
چھت سب کے لیے
تعلیم سب کے لیے
روزگار سب کے لیے
خوراک سب کے لیے