مفت آٹا۔۔ سیاسی رشوت، سہولت یا مصیبت

1353

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی طرف سے اعلان کردہ رمضان ریلیف پیکج کے تحت غریب اور مستحق کم آمدنی والے خاندانوں میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، مفت آٹا فراہمی کی اس سہولت کے لیے 25 شعبان المعظم سے 25 رمضان المبارک کی مدت مقرر کی گئی ہے اس دوران فی خاندان دس کلو آٹے کے تین تھیلے مہیا کئے جائیں گے۔ مفت آٹے کی اس اسکیم سے مستفید ہونے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر ہونا لازمی ہے اور آٹے کے حصول کے خواہش مند ہر شخص کو اپنا شناختی کارڈ نمبر 8070 پر ایس ایم ایس کرنا ہو گا۔ جہاں سے تصدیق کے بعد ہی وہ شخص آٹے کے تھیلے کے حصول کا حق دار قرار پائے گا مستحقین کے لیے آمدن کی حد 60 ہزار روپے ماہوار سے کم رکھی گئی ہے، حکومت کے اعلان کے مطابق صرف پنجاب میں اس کام کے لیے 53 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جب کہ مستحقین کو آٹے کی فراہمی کے لیے بیس ہزار سیل پوائنٹس، یوٹیلٹی سٹورز، ٹرکنگ پوائنٹس اور پی ایس پی اے سے رجسٹرڈ کریانہ فروشوں کا تعین کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنے اس اقدام کو تاریخ ساز قرار دیا جا رہا ہے مگر اس میں متعدد ایسے سقم موجود ہیں جن کے سبب عوام کے لیے یہ حکومتی پیشکش سہولت کی بجائے اذیت اور شدید نوعیت کی زحمت بن رہی ہے۔ اس ضمن میں اولین قابل اعتراض پہلو تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کی اس اسکیم کو صرف پنجاب اور صوبہ خیبر تک محدود رکھا گیا ہے سوال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کیا صرف ان دو صوبوں کے وزیر اعظم ہیں ملک کے دیگر حصوں کے غریب اور مستحق لوگوں کو اس میں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ان دونوں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں ان کے وزرائے اعلیٰ نے اپنی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خاں کی ہدایت پر تحلیل کر رکھی ہیں اور ان دونوں صوبوں میں کسی بھی وقت انتخابات کروائے جا سکتے ہیں اگرچہ حکومتی تاخیری حربوں کے باعث الیکشن کمیشن نے پنجاب میں تیس اپریل کی تاریخ مقرر کرنے کے باو جود انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کر کے ملک میں ایک آئینی و سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے مگر چونکہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت اس ضمن میں واضح حکم الیکشن کمیشن کو پہلے ہی جاری کر چکی ہے اور توقع ہے کہ الیکشن کمیشن کے التوا کے اعلان کے باوجود عدالت عظمیٰ کی مداخلت اور حکم کے نتیجے میں حکومت اور الیکشن کمیشن بہرحال ان دو صوبوں میں انتخابات کروانے پر مجبور ہو سکتے ہیں اس لیے مفت آفا فراہمی کی اسکیم پنجاب اور صوبہ خیبر کے عوام کے لیے سہولت نہیں، سیاسی رشوت کی حیثیت رکھتی ہے ورنہ صرف دو صوبوں کے لوگوں تک محدود رکھ کر ملک کے باقی حصوں کے عوام سے امتیازی اور سوتیلی ماں کا سلوک روا رکھنے کا آخر کیا جواز پیش کیا جا سکتا ہے؟
حکومت کے طے کردہ طریق کار کے مطابق آٹے کے حصول کے خواہش مند شخص کو اپنا شناختی کارڈ نمبر 8070 پر ارسال کرنا ہو گا جہاں سے اس کی اہلیت اور حصول آٹے کے مستحق ہونے کی تصدیق کے بعد ہی اسے آٹا مل سکے گا مگر کون نہیں جانتا کہ وطن عزیز میں کم علم اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد مختلف وجوہ سے تاحال شناختی کارڈ حاصل نہیں کر سکی یہ تمام لوگ غربت کی سطح سے بہت نیچے زندگی گزارنے اور مالی لحاظ سے نہایت پریشان حال ہونے کے باوجود بیک جنبش قلم غریبوں کے لیے اعلان کردہ اس اسکیم کے لیے نا اہل ٹھہرا دیئے گئے ہیں اسی طرح پنجاب حکومت کے اشتہارات کے مطابق صوبے کے دس کروڑ عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے مگر ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھ دی گئی ہے کہ اس سہولت سے مستفید ہونے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ ہونا لازم ہے، یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بنیادی طور پر غریب اور بیوہ خواتین تک محدود ہے اس طرح یہ اسکیم محدود سے محدود تر ہوتی چلی گئی ہے مگر حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ پنجاب کے دس کروڑ افراد کو دس دس کلو کے تین تین تھیلے مفت تقسیم کر رہی ہے۔ حکومت کے انہی بلند بانگ دعوئوں اور نہایت ناکافی انتظامات کی وجہ سے یہ اسکیم غریب و نادار اور مستحق لوگوں کے لیے راحت اور سہولت کی بجائے ذلت و خواری کا ذریعہ بن چکی ہے، جب سے یہ اسکیم روبہ عمل آئی ہے ہر روز مفت آٹے کے حصول کی کوشش میں سرگرداں دو تین افراد کے جان سے جانے اور درجنوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ اسکیم کو شروع ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو ہے مگر تاحال حکومتی مشینری بد انتظامی کے خاتمہ میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ صرف جمعۃ المبارک کے اخبارات کی اطلاع ہے کہ جمعرات کے روز مفت آٹا لینے گھر سے نکلنے والے دو افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ زخمیوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ چارسدہ میں آٹے کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے ایک معمر شخص شیر افضل جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور درجنوں مرد و خواتین زخمی ہو گئے۔ بنوں میں آٹا تقسیم پوائنٹ پر ٹرک کی ٹکر سے دیوار لوگوں کی قطار پر گر گئی جس سے ایک شخص جاں بحق اور چار زخمی ہو گئے۔ سرائے مغل میں مفت آٹے کے حصول کی خاطر جمع خواتین بدنظمی کے سبب آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں جن میں سے ایک بے ہوش ہو گئی اسی طرح کے کئی ایک واقعات اب تک سامنے آ چکے ہیں یوں یہ مفت آٹاا سکیم لوگوں کے لیے راحت و آرام کی بجائے وبال جان بن چکی ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار بار بار کے دعوئوں کے باوجود تاحال صورت حال کی اصلاح میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں، اس جانی و مالی نقصان کے علاوہ سنگین بدعنوانیوں، جعلسازی، عملے کی اقربا پروری، بد تمیزی اور ناجائز خوری کی شکایات بھی عام ہیں۔ فلور ملز کی جانب سے تھیلوں میں کم آٹے کی فراہمی کے ذریعے بوگس اضافی سپلائی اور شناختی کارڈوں کے غلط استعمال کے ذریعے بھی ناجائز مفاد اٹھایا جا رہا ہے، مبینہ طور پر مستحق افراد کے اصل شناختی کارڈ یا ان کی نقول حاصل کر کے غیر متعلقہ ا ور غیر مستحق لوگوں کو مفت آٹا دیا جا رہا ہے جو اسے مہنگے داموں بازار میں فروخت کر رہے ہیں۔ پنجاب میں کم آٹے اور جعلی اعداد و شمار فراہم کرنے کے الزام میں بعض ملوں کے خلاف مقدمات بھی درج کئے گئے ہیں، یہ بات بھی عام دیکھنے میں آ رہی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ مستحق لوگ جب مفت آٹے مراکز پر اپنا شناختی کارڈ لے کر جاتے ہیں تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان کے نام پر تو پہلے ہی آٹے کا تھیلا جاری ہو چکا ہے۔ اس طرح غریب اور ان پڑھ خواتین و حضرات کی لا علمی کا بھی بھر پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو دیئے جانے والے مفت سرکاری آٹے کا معیار بھی ناقص بتایا جا رہا ہے، آٹے کی رنگت بھی عام آٹے کے مقابلے میں سرخی مائل ہے جس کی روٹی پکانے میں بھی خواتین خانہ کو دشواری کا سامنا رہتا ہے، روٹی پکنے کے تھوڑی دیر بعد ہی سخت اور خشک ہونا شروع ہو جاتی ہے، اس کا ذائقہ بھی معمول کے آٹے سے پکائی گئی روٹی سے مختلف محسوس ہوتا ہے، غرض یہ کہ طرح طرح کی خرابیوں اور شکایتوں کا غریب لوگوں کو سامنا ہے، بدعنوان عناصر اس اسکیم کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ وفاقی اور نگران صوبائی حکومتیں قومی خزانے سے خطیر رقوم تو اس مد میں خرچ کر رہی ہیں مگر خرابیوں پر قابو پانے میں یا تو سنجیدہ نہیں یا مکمل طور پر نا اہل اور ناکام ثابت ہوئی ہیں۔