بھوک، افلاس اور رمضان المبارک

488

سال 2023 میں رمضان المبارک کے روزے منفرد حیثیت رکھتے ہیں حکمرانوں کی غلطیاں غریب اور سفید پوش کے گلے کا طوق بن کر سامنے آئی ہیں۔ اب تو حالات یہ ہیں جو لوگ خود زکواۃ تقسیم کرتے تھے مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 10 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو رات کو کھانا کھائے بغیر سو جاتے ہیں، صاف پانی، صحت اور تعلیم کی سہولتیں ان کی پہنچ سے دور ہیں۔ بھوک اس قدر ظالم ہوتی ہے کہ اس کے ہاتھوں لاکھوں لوگ لقمہ ٔ اجل بن جاتے ہیں کبھی دہشت گردی کی صورت میں تو کبھی خودکشی کی صورت۔ جی ہاں دہشت گرد کون ہے جسے زندگی عزیز نہیں ہوتی لیکن اپنے پیاروں کے پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے اپنے ساتھ ساتھ اور بھی ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی ایک بڑی وجہ یہی غربت ہوتی ہے۔ جرائم پیشہ افراد اسی بھوک کی پیداوار ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کب تک بھوک کے ہاتھوں کبھی ماں تو کبھی باپ اپنے جگر گوشوں کو مٹی کی نظر کریں گے آخر کب ہمارے ضمیر جاگیں گے۔ ارے ہمارا تو دین اتنا پیارا ہے کہ جس کے ارکان میں بھی اللہ نے غریب کو نظر انداز نہیں کیا۔
روزہ کیا ہے کیا فرق پڑتا ہے اللہ کو ہماری بھوک پیاس سے آخر کیا مقصد پنہا ہے اس میں صاف اور سیدھی بات ہے دوسرے کا احساس روزہ امیر پر بھی فرض ہے اور غریب پر بھی۔ امیر جب روزے سے ہوتا ہے تو اس کے اندر بھی بھوکا پیاسا رہ کر غریب کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ غریب کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ امیر اپنے غریب بھائی کے دکھ کو محسوس کرے۔ اور پھر اس کا حل بھی اللہ صاحب استطاعت انسان کو خود ہی بتا دیا نہ صرف بتایا بلکہ اس پر عمل کیے بغیر ایمان ہی نامکمل قرار دے دیا۔ یعنی زکواۃ دیں۔ اس میں بھی کتنے خوبصورت پہلو ہیں۔زکواۃ کا ثواب تو ملے گا ملے گا، مال کی پاکی کی خوشخبری الگ سے دی ہے۔ دوسرا اس میں دولت کی مساوی تقسیم کا پہلو بھی نظر آتا ہے جب صاحب اعمال مستحق کو دے گا اس کی تنگی بھی دور ہو گی۔ روزہ ایک ایسی جسمانی عبادت ہے جو غریبوں کے ساتھ غم گساری کا درس دیتا ہے اور گناہوں کی غلاظت سے روح کو پاک کرتا ہے۔ فکر و اندوہ اور نکبت و افلاس کا محض تصور کافی نہیں، ایک سچے مسلمان کی دردمندی اور فضیلت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزے کی حالت میں ان مشکلات کا عملی طور پر سامنا کرے جن کا ان گنت لوگ شکار ہیں بھوک، پیاس برداشت کرنا زندگی کی بہت بڑی آزمائش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غربت کئی اخلاقی اور سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے روزی کفایت نہ کرے تو دھونس، دھاندلی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری ایسی اخلاقی برائیاں زور پکڑتی ہیں۔ انسان بہتان تراشی، حسد اور دروغ گوئی جیسی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔ آج کروڑوں لوگ خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ روزہ جس ایثار و ہمدردی کی تاکید کرتا ہے اگر اس پر عمل کیا جائے اور فقرا و مساکین کی مالی مدد کی جائے تو لاتعداد لوگوں کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔
رمضان کے بابرکت مہینے کی شروعات ہے۔ ہر کسی کو تزکیہ نفس کے ساتھ اپنی اور ایثار و سخاوت کے ساتھ دوسروں کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم سب ایک کشتی کے مسافر ہیں۔ چناں چہ زندگی کا سفر مل جل کر طے کرنا چاہیے۔ یہی روزے کی غرض و غایت ہے۔ آئیں مل جل کر ان سفید پوش روزہ داروں تک افطاری اور سحری کا سامان پہنچائیں جس سے ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر عظیم سمیٹیں۔ اس وقت ملک کے معاشی حالات بہت سنگین ہیں اور غریب جیتے جی مر گیا ہے، لہٰذا اس رمضان مخلوق کا غم کھانے کی تربیت حاصل کر لیں تو سارا سال اس پر عمل آسان ہوجائے گا۔ سید اشرف جہانگیر سمنانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے جو مرتبہ بھی ملا ہے، وہ محض عبادت سے نہیں ملا، بلکہ خدمت خلق اور غم گساری سے ملا ہے‘‘۔ اللہ کی ذات سے کیا بعید ہے کہ ہمارے ہاتھ سے افطار اور سحری کے وقت کسی ضرورت مند روزے دار کے منہ چند لقمہ خوراک کے چلے جائیں تو ہمارا یہ عمل آخرت میں ہماری مغفرت کا ذریعہ بن جائے، لیکن اس غم گساری میں ہمیں اس بات کا بھی بہت خیال رکھنا چاہیے کہ ہماری امداد اور تعاون حقیقی مستحق افراد تک پہنچے، ناکہ رمضان میں لشکروں کی شکل میں شہر شہر اور گائوں پڑائو ڈالنے والے پیشہ ور گداگروں کی نذر ہو جائے۔ ہمیں ایسے لوگوں کے درمیان امتیاز کرنا ہوگا کون حقیقی مستحق ہے اور کون پیشہ ور، ہمارا مزاج کچھ ایسا ہوگیا ہے کہ ہم ہر صدا دینے والے کو مستحق جان کر اپنا دست تعاون بڑھا دیتے ہیں ایسے مناظر ہمیں مساجد میں ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ یاد رکھیے ہماری مدد کے سب سے اولین مستحق ہمارے قریب ترین رشتے دار بھائی بہن ہیں، اس کے بعد دیگر مستحقین۔
برکتوں والا مہینہ بے شمار ثواب ساتھ لاتا ہے۔ اور ہم سب اللہ ربّ العزت کی مخلوق سے صلہ رحمی اور نیک برتاؤ کے ذریعے ثواب کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مہنگائی کے اس مشکل ترین دور میں اپنے ارد گرد موجود ایسے افراد پر ضرور نظر رکھیں جو مشکل سے گزر بسر کر رہے ہیں۔ لیکن سفید پوشی کے باعث کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ لہٰذا آپ انہیں امداد کے طور پر کچھ رقم فراہم کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اپنی استطاعت کے مطابق ضروری اشیاء پر مشتمل ایک پیکٹ ان کے دہلیز تک پہنچانے میں عار محسوس نہ کریں۔