پنجاب کے انتخابات کا التوا

1080

عدالت عظمیٰ کے حکم کے باوجود الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو 8 اکتوبر تک ملتوی کردیا ہے۔ انتخابات کے التوا کا فیصلہ ایک مراسلے کے ذریعے صدر پاکستان کو بھی بھیج دیا گیا ہے۔ یہ مراسلہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان کے دستخط سے بھیجا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کرانا آئینی ذمے داری ہے۔ اس فیصلے سے قبل یہ بات واضح نہیں تھی کہ انتخابات کی تاریخ کا تعین کون کرے گا۔ عدالت عظمیٰ کا اس حوالے سے یہ فیصلہ تھا کہ یہ ذمے داری الیکشن کمیشن کی ہے اور وہ متعلقہ صوبے کے گورنر کی مشاورت سے تاریخ کا فیصلہ کرے گا۔ عدالت عظمیٰ نے گورنر پنجاب کا یہ عذر قبول کرلیا تھا کہ انہوں نے چوں کہ اسمبلی تحلیل نہیں کی ہے۔ اس لیے انتخابات کی تاریخ طے کرنا ان کی ذمے داری نہیں ہے اس لیے عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ الیکشن کمیشن صدر پاکستان کی مشاورت سے تاریخ متعین کرے گا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 30 اپریل کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا تھا، عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد گورنر کے پی کے بھی صوبے میں اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ بھی اس کے لیے تاخیری حربے اختیار کررہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے قبل اور فیصلے کے بعد بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انتخابات کرانے سے مسلسل انکار کیا جارہا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بھی عدالت عظمیٰ کے سامنے دوران سماعت وہی عذر پیش کیا تھا جو اس فیصلے میں کہا گیا ہے۔ وہ یہ کہ پرامن اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے محکمہ داخلہ، محکمہ دفاع، پولیس، رینجرز اور فوج کی نفری دینے کے لیے اور محکمہ خزانہ اخراجات کے لیے فنڈ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے موقع پر ہی وفاقی وزیر داخلہ نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے پالیسی بیان میں انتخابات کے ایک ہی روز ہونے کے بارے میں رہنمائی کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کی اپنی آئینی ذمے داریاں ہیں مگر ان تمام اداروں کا اختیار پارلیمنٹ کا مرہون منت ہے۔ پارلیمنٹ ہی ان کے دائرہ کار کا تعین کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کسی بھی اختیار کو بڑھا سکتی ہے اور کم بھی کرسکتی ہے۔ حکومت، پوری قوم اور تمام اداروں کو رہنمائی کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ بحث کے بعد رہنمائی کرے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے ایک عذر یعنی امن وامان کی خرابی اور دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر 8 اکتوبر تک صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اصل مسئلہ ہے کہ گزشتہ برس کے اپریل سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی بحران حل نہیں ہوسکا۔ قومی اسمبلی، ایوان بالا سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں سیاسی بحران حل نہیں کرسکیں۔ سابق حکومتی سیاسی جماعت جو اسمبلی میں اپنی حمایت کھو بیٹھی تھی وہ اپنی معزولی کے بعد زیادہ مقبول ہوگئی، اس کی وجہ سے حکمران اتحاد ہر قسم کے اور ہر سطح کے انتخابات سے فرار چاہتا ہے۔ سابق حکومت جواب حزب اختلاف میں ہے سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ اس لیے اس کا مطالبہ یہ ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں، اس لیے اس نے دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا تا کہ حکومت پر دبائو بڑھے۔ حکومت اور ان کے اتحادیوں کے پاس دو ہی راستے باقی بچے تھے آئین کے مطابق 90 دن میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرائیں یا وقت سے پہلے تمام انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ حکومت ووٹوں راستوں میں کوئی راستہ بھی اختیار نہیں کرنا چاہتی اس لیے کہ اسے معلوم ہے کہ پنجاب کے نتخابات میں اسے بری طرح شکست ہوگی۔ اس سیاسی زلزلے کو مسلم لیگ (ن) برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ ہر صورت میں انتخابات سے گریز کررہی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی اور عوامی تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کررہی ہے جس سے سیاسی بحران مزید پیچیدہ ہورہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے التوا کے اعلان نے اسے متنازع قرار دے دیا ہے۔ امن وامان اور دہشت گردی کا عذر، عذرلنگ ہے اس لیے کہ پاکستان میں دہشت گردی تین عشروں سے جاری ہے۔ ملک میں دہشت گردی بھی جاری رہی، قومی اور ضمنی انتخابات بھی ہوتے رہے بلکہ افواج پاکستان ملک کے مختلف علاقوں میں ایک سے زائد آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ کرچکی ہیں۔ اس کے مقابلے میں عمران خان یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، اس کے باوجود ان کا مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات کرائے جائیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کا آغاز کردیا تھا لیکن حکومت نے طاقت کے استعمال کا غیر جمہوری حربہ اختیار کیا جس نے حکومت کے عزائم کو مزید مشکوک کردیا ہے اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد سیاسی بحران بڑھ گیا ہے۔