’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی نئی لہر

405

کراچی میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ یعنی ہدف بنا کر قتل کرنے کی نئی لہر سامنے آئی ہے، گزشتہ دو دن میں دو افراد قتل کردیے گئے، جن کا تعلق دو الگ الگ مذہبی جماعتوں سے تھا۔ چند روز قبل ایک ماہر تعلیم اور ماضی میں کشمیری مجاہدین کی تنظیم سے وابستہ رہنما خالد رضا کو ان کے گھر کے سامنے نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا۔ کراچی میں گزشتہ دو دنوں میں دو الگ الگ مسلکوں سے وابستہ مذہبی رہنما اور عالم دین مولانا سلیم کھتری اور صوفی عبدالقیوم قادری کو دو مختلف علاقوں میں نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔ مقتولین میں ایک بازار میں پان شاپ کی دکان پر بیٹھے تھے، جبکہ دوسرے رہنما اور عالم دین فجر کی نماز پڑھا کر اپنے گھر جارہے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دستیاب ہے جس میں ’’نامعلوم‘‘ قاتلوں کو واردات کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے شہر میں کیمرے کی تنصیب قاتلوں، چوری اور رہزنی کی وارداتوں میں ملوث ڈکیتوں کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہے۔ جرائم پیشہ افراد ان حفاظتی تدبیروں سے بے نیاز ہیں اور وہ جہاں چاہیں واردات کرنے میں آزاد ہیں۔ یہی معاملہ ہم اسٹریٹ کرائمز یعنی رہزنی کی وارداتوں کے حوالے سے بھی دیکھ رہے ہیں، سڑکوں پر عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کو جو چاہتا ہے لوٹ لیتا ہے۔ اس بارے میں کسی علاقے کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ ایک طرف انسداد جرائم کے ریاستی اداروں پولیس رینجرز اور فوجی ایجنسیوں نے ناقابل احتساب اختیارات حاصل کرلیے ہیں، جس کی بنا پر وہ جس کو چاہتے ہیں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر قید کردیتے ہیں اور انہیں کسی عدالت سے چارہ جوئی کا حق بھی حاصل نہیں رہتا جبکہ قاتل، رہزن اور ڈکیت ہر قسم کے احتساب سے بے فکر ہیں۔ آخر ایسا کیوں؟