ـ23 مارچ تجدید عہد کا دن

371

23 مارچ یہ دن ہم ہر سال مناتے ہیں کہ یہ دن تاریخ پاکستان میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن لاہور کے سابقہ منٹو پارک اور حالیہ اقبال پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد کیا گیا جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک علٰیحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی۔ اس کے سات سال کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل میں پہلا مرحلے میں 1936ء اور 1937ء میں پہلے عام انتخابات کرائے گئے جس میں مسلم لیگ کو بری طرح ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اُس کے اِس دعوے کی نفی ہوئی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس انتخاب میں ہندوستان کے اس وقت کے گیارہ صوبوں میں سے کسی ایک میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہوسکا تھا۔
کانگریس کو پہلی بار ہندوستان میں اقتدار ملا تو اس نے ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خطرات اور خدشات جنم لینے لگے۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دیا، گائوکشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دے دی۔ یہی وہ نقطہ ٔ آغاز تھا جب مسلم لیگ نے دو جدا جدا قوموں کے احساس کی بیداری کے لیے کام کیا۔ لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس کے پہلے دن یعنی 22 مارچ 1940ء میں قائداعظم نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ واریت کا نہیں ہے بلکہ یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں میں اتنا بڑا اور واضح فرق ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت اتحاد ناممکن ہے اور حل کی ایک ہی راہ ہے کہ دو علٰیحدہ ریاستیں بنائی جائیں۔ حقیقت میں 1937ء کے الیکشن مسلمانان ہند کے لیے ایک تازیانے سے کم نہ تھے، یہی وجہ ہے کہ تین
صوبوں کے وزرا اعلیٰ پنجاب سکندر حیات خان بنگال کے فضل الحق اور آسام کے سر سعد اللہ خان بیک وقت مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ انہوں نے قائداعظم کو اپنا رہنما تسلیم کیا اور ان کی آواز پر لبیک کہا۔ 22 مارچ 1940ء کے اجلاس کے دوسرے دن یعنی 23 مارچ 1940ء کے دن بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس کو مکمل اکثریت کے ساتھ پاس کیا گیا۔ اس قرارداد کے سات سال بعد پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ یہ بات کبھی بھی متنازع نہیں رہی۔ اگرچہ بعض سیاسی حلقوں نے اپنے داخلی اور سیاسی مفادات کے باعث اس کے وجود کی نت نئی تعبیریں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن نہ تو کبھی اس طرح حکومت نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور نہ عوام نے اُن کو پزیرائی بخشی۔ قائداعظم نے اوّل روز سے یہ بات واضح کردی تھی کہ قوم کی کسی بھی تعریف کی رو سے مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کے پاس لازماً اپنا وطن، اپنا علاقہ، اور اپنی ریاست ہونی چاہیے تا کہ مسلمان بحیثیت قوم اپنے روحانی، ثقافتی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی زندگی کے اصولوں اور معیارات کے مطابق پروان چڑھیں۔ قائداعظم نے 18 جون 1945ء میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام اپنے پیغام میں اس موقف کی وضاحت اس طرح کی تھی کہ پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں بلکہ نظریہ حیات ہے جس کی حفاظت کی جانی چاہیے۔ دنیا کے نقشے پر ایک اسلامی نظریاتی ملک کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا کہ جس سے تمام غیر اسلامی حکومتوں اور عناصر کو پریشانی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اسے اول روز سے ایک چیلنج کے طور پر لیا۔ ان کی کوشش تھی کہ اسے دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے اور اگر اس میں مکمل کامیابی نہ ہو تو کم از کم اسے اپنی بنیادوں سے ہٹادیا جائے تاکہ اس بنیادی فکر اور نظریہ سے اس کا رشتہ کاٹ دیا جائے جس کی بنیاد پر اس مملکت کا تمام عالم اسلام سے ایک روحانی تعلق ہے۔ اللہ کا کرم نہ ہوتا تو یہ ملک کب کا ختم ہوچکا ہوتا۔ اگرچہ دشمن اس کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن ان کے مقاصد پورے نہیں ہوئے۔ شروع ہی سے نوخیز پاکستان کو ایک طرف بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنا پڑا اور دوسری طرف اندرونی طور پر سازشوں کے ذریعے کوششیں کی گئیں کہ اس نظریاتی مملکت کا دستور ہی اسلامی نہ بن سکے اور اگر بن جائے تو چلنے نہ دیا جائے۔ بدقسمتی سے قائداعظم کے بعد بے لوث اور بے غرض محب وطن رہنمائوں کو سازشوں کے ذریعے حکومت سے دور رکھا گیا۔ مرزائیوں کو آگے لایا گیا اور انہیں کلیدی عہدوں پر فائز کیا گیا۔ آبادی کو گروہوں میں تقسیم کرنے کے لیے باقاعدہ مختلف صوبوں کی زبانوں کے فروغ کے لیے اداروں کی بنیاد رکھی گئی اور اردو اور اردو بولنے والوں کو نظر انداز کیا گیا۔ بھٹو نے دستور کے اندر پاکستان کی بنیاد ’’اسلامی سوشلزم‘‘ قرار دینے کی کوشش کی۔ اس وقت قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے محض چار نمائندے تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کی بھرپور مخالفت کی یہاں تک کہ بھٹو کو انہیں قومی اسمبلی سے ڈنڈا ڈولی کرکے باہر پھینکوانا پڑا۔ لیکن اپنی تمام تر فسطائی ہتھکنڈوں اور دھونس دھاندلی کے باوجود وہ اپنی من مانی کارروائی کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اسلامی سوشلزم کو آئین کی بنیاد قرار دینے میں ناکامی کے بعد بھٹو صاحب نے مائو کی سرخ کتاب کو تعلیمی اداروں میں پھیلانے کی کوشش کی تاکہ اسلامی سوشلزم کی رومانوی اصلاح کے ذریعے طلبہ کے کچے ذہنوں کو اپنی مرضی کے مطابق موڑا جاسکے۔ ملک کے دولخت ہونے کا درد ناک سانحہ رونما ہوچکا تھا جس کے نتیجے میں 90 ہزار فوجی جنگی قیدی بنے لیکن اس کے باوجود اس سے کوئی سبق نہیں لیا گیا۔ لسانی بنیادوں پر آبادی کی مزید تقسیم کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مرحوم جنرل ضیا الحق نے کراچی میں جماعت کا زور توڑنے کے لیے لسانی تنظیموں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ وقت نے ثابت کیا کہ یہ تنظیمیں کس قدر ملک دشمن ثابت ہوئیں۔ انہوں نے انڈیا کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا اور پاکستان کے لیے اپنے جگر گوشوں کو قربان کرنے والوں اور اپنی مائوں بہنوں کی عصمتوں کی قربانی دینے والوں کی اولادوں کو پاکستان ’’نظریہ پاکستان‘‘ جہاد اور اسلام سے ورگلانے کی کوشش کی۔ اس دوران بے شمار نوجوانوں کو اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں وحشیانہ تشدد کے ذریعے شہید کیا گیا۔ جب کہ دوسری طرف عصبیت کی سحر انگیزی کا شکار ہونے والے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اندھیری راہوں کی راہی ٹھیری۔
ایک صبر آزما خونیں دور کے بعد بالآخر کراچی کے مظلوم عوام عصبیت زدہ نعروں کی سحر انگیزی سے نکل آئے۔ لیکن اب وقت کا پہیہ اُلٹا چل نکلا تھا۔ جہاد کو حکومتی سطح پر ممنوع قرار ٹھیرایا جاچکا تھا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے دبائو میں آکر اپنے برادر ملک افغانستان کے خلاف فوجی اتحاد میں شمولیت کا نقصان دہ اور شرمناک فیصلہ کیا۔ حالانکہ عین اسی وقت ایران نے اس اتحاد میں شمولیت سے علی الاعلان انکار کیا اور سعودی حکومت نے اپنے فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے امریکا سے ہر طرح کا تعاون کیا امید تھی کہ اس کے نتیجے میں قرضے معاف کیے جائیں گے اور فوجی اور اقتصادی امداد علٰیحدہ ملے گی۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹا ہوگیا۔ ایک طرف تو بھارت نے سرحد پر اپنی فوج لگادی اور دوسری طرف امریکا اور بھارت کے درمیان فوجی تعاون کے مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ جس کے تحت مہلک ترین ہتھیار جن میں اورین طیارے، جہاز شکن ہاریون میزائل اور سی ہاک ہیلی کاپٹر سمیت مکمل جنگی نظام بھارت کے حوالے کردیے گئے۔ لیکن ابھی بھی آنکھوں پر پڑا پردہ نہ ہٹ سکا تھا۔ لہٰذا جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی نظر میں مزید معتبر بننے کے لیے دینی مدارس پر کریک ڈائون کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کارکنوں کو گرفتار اور سیکڑوں دفاتر میں تالے لگادیے گئے۔ ان میں الرشید جیسے ادارے بھی تھے جو خالصتاً فلاحی کاموں میں مصروف تھے۔ حکومتی سطح پر غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے عزم کا اظہار کیا گیا لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور عام آدمی کی بھی دسترس سے دور ہوتی ہوئی تعلیم نے اس بات کا اظہار کیا کہ جہاد غربت کے نہیں غریب آدمی کے خلاف ہورہا ہے اور ساتھ ہی بے روزگاری کی بلند ہوتی ہوئی شرح معاشرے میں خودکشیوں اور جرائم میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ غریب کے خلاف وہی معاملات آج بھی ہیں۔ مہنگائی میں اضافے کے باعث خواتین بھی گھروں سے نکل کر چھوٹی موٹی نوکری کی جدوجہد پر مجبور ہوئیں، ساتھ ہی میڈیا کے ذریعے عوام بالخصوص نوجوان طبقے کو فحاشی اور عریانی کی راہ پر لگانے کی کوشش کی گئی تا کہ نوجوان جہاد کلچر کو بھول کر لہو لعب میں مشغول ہوجائیں۔
حالات کی سنگینی اس بات کا تقاضا کررہی ہے کہ پوری قوم کو مجتمع کیا جائے، خدائے وحدئہ لاشریک کی وحدانیت وہ بنیادی مفقہ نکتہ ہے جس پر ساری قوم کو یکجا کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا تمام محب وطن، قوم و ملک کا درد رکھنے والے اور خدا کے حضور جواب دہی کا احساس رکھنے والے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں، کمرہمت باندھ لیں اور قوم کو اس بنیادی نکتہ پر اکٹھا کریں۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں، یہ تو وہ کام ہے جو پیغمبروں کے سپرد کیا گیا۔ لہٰذا اس کے لیے ویسی ہی محنت اور عرق ریزی چاہیے، انبیائِ کرام کی سیرت اس کے لیے نمونہ ہے۔ تمام مسلمان خواہ کسی بھی فرقہ، گروہ یا برادری سے تعلق رکھتے ہوں گے، خدائے واحد کی کبریائی کے متفقہ نکتہ پر آپ سے اختلاف نہیں کریں گے۔ سو پھر اس ملک میں جو محض اسی کے نام پر حاصل کیا گیا ہماری تمہاری حکومت کی بات کیوں کی جائے۔
چناں چہ پاکستان میں حکومت بھی اُسی کی ہونی چاہیے، قانون بھی اُسی کا چلنا چاہیے اور کبریائی کا ڈنکہ بھی اُسی کا بجنا چاہیے۔ اس سے کوئی فرد، کوئی گروہ مستثنا نہیں خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی ’’سپر‘‘ کہلوانے پر مُصر ہو۔ اور ریاست مدینہ محض کہہ دینے سے وجود میں نہیں آتی۔ یاد رکھیے کہ جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا ارادہ نہیں کرتی خدا اُس وقت تک اُس کے حالات نہیں بدلتا۔ ہمارے پاس تو وہ نسخہ کیمیا موجود ہے جو زرے کو آفتاب اور پتھر کو سونے میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس نسخہ کو ترک کردینے اور غلافوں میں لپیٹ کر طاق نساں میں رکھ دینے کے باعث ہی مسلمان ذلت و خواری اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
ہمارے حکمران اور سیاست دانوں کی اکثریت نے دولت عزت اور شہرت کے لیے تارکِ قرآن بننا قبول کیا۔ کیا انہیں وہ مل سکی؟ انہوں نے اسلام کا ٹچ دے کر کامیابی حاصل کرنا چاہی، ناچ ناچ کر ریاست مدینہ کے نعرے لگائے، ریاست مدینہ کیا اس طرح نعرے لگانے سے بن جاتی ہے؟ اس کے لیے جدوجہد کرنی ہوتی ہے، کردار پیش کرنا ہوتا ہے، خدمت کی مشقت سہنی ہوتی ہے، جیسی سراج الحق، مشتاق احمد خان، حافظ نعیم الرحمن، عبدالرشید اور ان کے ساتھیوں نے سہی، اور دنیا کو دکھایا کہ مخلص دیانت دار اور عوام کے لیے جان و دل لٹانے والے لیڈر کیسے ہوتے ہیں۔ اور کیسے رضائے الٰہی کے حصول اور اللہ کے رحم و کرم اور مہربانی کا مستحق بننے کے لیے جان کھپائی جاتی ہے۔ انسانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتے ہیں اور ایسے بندوں پر اللہ بڑا مہربان ہے۔ (البقرہ:207)