ڈرائیوان حاضری

619

قانون، عدالت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، پاکستان میں جو نئی سحر طلوع ہورہی ہے اس میں اب یہ ادارے اہم اور فتح یاب نہیں ہیں سیاسی مقبولیت ان سے بے نیاز ہی نہیں بالاتر بھی ہے۔ اب عدالتیں اور ریاست نہیں افراد، گروہ اور جتھے فیصلہ کریں گے کہ کون حق پر ہے اور کون حق پر نہیں ہے۔ اب یہ طریق کلاسیکی ٹھیرا جس پر عمل کرنا ضروری نہیں رہا کہ ریاست اگر غلط بھی ہوتو خود کو حوالے کرنا پڑتا ہے تب عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں۔ صحیح یا غلط جنہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اسی اصول کے تحت سقراط نے زہر کا پیالہ پیا تھا، نیلسن مینڈیلا نے تقریباً 27برس جیل کاٹی تھی، بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما تختہ دار پر جھول گئے، مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خان نے قید با مشقت کاٹی، ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھ گئے، نواز شریف نے جلا وطنی اختیار کی، اکبر بگٹی جان پر کھیل گئے، پختون اور بلوچ رہنما قیدو بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں۔ ایک مہم جو اپنی سیاسی مقبو لیت کو ان تمام سیاسی اور عدالتی پہلوئوں پر غالب قوت سمجھتا ہے۔ اس کی نجی قوت کے راستے میں کوئی حائل نہ ہو، کوئی قانون اس کے تعاقب میں سرگرم نہ ہو، کوئی عدالت اسے پیشی پر مجبور نہ کرسکے۔ یہی آج کا معمول یہی آج کا سچ ہے۔
بد قسمتی سے اس ملک میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ عدالتیں اس کے دبائو میں آگئی ہیں۔ عدالتیں اس سے مغلوب ہیں۔ عام آدمی کا عدالت پانچ منٹ انتظار نہیں کرتیں اور اس کی ضمانت منسوخ ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں جواز ڈسکس نہیں کیے جاتے کہ وہ ٹریفک جام میں پھنس گیا تھا یا کسی بنا پر عدالت میں حاضری دینے کے قابل نہ ہوسکا۔ جب کہ عمران خان کو جج ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ گھنٹوں عدالتوں میں ان کا انتظار کیا جاتا ہے اس کے باوجود وہ حاضر نہ ہوں تو عدالتیں ان کی سیاسی مقبولیت اور اثر پزیری سے با ہر نہیں نکلتیں۔ عدالتی اوقات کی پابندی ان پر لازم نہیں۔ ان کے معاملے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیوں وہ کمرہ عدالت تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔ اگر عوامی جتھے ان کے کمرہ عدالت تک پہنچنے میں حائل ہیں تو ان جتھوں کو عدالت تک کون اپنے ساتھ لے کر آیا۔ عدالت اس پر ناراضی کا اظہار کرنے کے بجائے، اسے ناگوار اور ناقابل برداشت قرار دینے کے بجائے اس کی داد دیتی نظر آتی ہے اور خود رجسٹر لے کر حاضری لگوانے کے لیے اس کی جناب میں حاضر ہو جاتی ہے۔ نہ صرف حاضر ہو جاتی ہے بلکہ تیس مارچ تک کا ریلیف بھی دے دیتی ہے۔ اب ملزم کمرہ عدالت تک اپنی گاڑی بھی لے جاسکتا ہے اور اسے ڈرائیوان حاضری کی سہولت بھی حاصل ہے بشرطیکہ وہ مقبول لیڈر ہو اور عوامی جتھے اس کے ہمراہ ہوں۔ کارکنوں کے ساتھ عدالت میں پیشی ہماری عدالتوں نے اس باب میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ کیوں؟
عمران خان اپنی سیاسی مقبولیت کو ایک ہتھیار کے طور پر عدل اور عدالتوں کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ عدالت کے باہر کیا میدان جنگ سجا ہے انصاف کو اس کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی فتح کی پیش گوئی کی تھی کیونکہ ان کی عدالتیں عظیم وجوہ سے بے نیاز ہو کر مجرد انصاف کررہی تھیں۔ باہر جنگ عظیم بپا ہے یا امن وامان کی مثالی صورتحال ہے، ایک گروہ ہمراہ موجود ہے یا کوئی تنہا شخص انصاف کے حصول کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے عدالتوں کو اس کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ ہماری عدالتیں ایک حاشیہ نشین کی طرح عمران خان کی بیان کردہ وجوہ اور ان کے خود پیدا کردہ عدالتوں سے باہر کے حالات کی اسیر ہوکر رہ گئی ہیں۔ اسلام آباد کی سیشن عدالت میں چونکہ عمران خان فرد جرم عائد ہونے سے بچنا چاہتے تھے اس لیے وہ اپنے نمائندہ عوامی جتھے اپنے گھر سے لے کر نکلے۔ عمران خان کمرہ عدالت میں نہ پہنچ سکیں سیشن عدالت سے تھوڑے ہی فاصلے پر ان جتھوں نے امن وامان کی صورتحال خراب کردی۔ منگل 21مارچ کی دوپہر جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے چونکہ عمران خان کو زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ پر پولیس حملے کا کیس لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنا تھا، جج صاحب کو بتانا تھا کہ پولیس حملے کی وجہ سے بشریٰ بیگم خوفزدہ ہوکر چیخنے پر مجبور ہو گئی تھیں لہٰذا وہ بغیر جتھوں کے با آسانی، ایک گمنام کار میں، خاموشی سے عدالت میں پہنچ گئے اور ریلیف حاصل کر لیا۔ عوامی جتھوں کے استعمال کو، عدالتی فیصلے اپنے حق میں حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک سائنس بنادیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں اس موقع پر وہ جتنا خوش تھے، جس طرح ان کی مسکراہٹ مسلسل اور فتح یاب تھی وہ ایسی ہی تھی جیسے کوئی سائنس دان اپنی ایجاد کے کامیاب نتائج دینے پر خوش ہو۔
عدالتی معاملات میں عمران خان نے جن روایات کو جنم دیا ہے ان میں عدالتوں میں ملزم کی پیشی اس کی سیکورٹی کی صورتحال سے مشروط ہے۔ ریاست اور اس کے سیکورٹی کے اداروں پر عمران خان کو اعتماد نہیں۔ وہ عدالتوں سے اپنی سیکورٹی کے طالب ہیں یا باالفاظ دیگر اب ملزموں کو سیکورٹی مہیا کرنا عدالتوں کی ذمے داری ہے۔ اب سے پہلے روایات یہ رہی ہیں کہ جرائم پیشہ لوگ انصاف کے متلاشیوں کو قتل کی دھمکیاں دیتے تھے، عدالتی راستوں اور عدالت بیچ اپنے مخا لفین پر قاتلانہ حملے کردیتے تھے، ان کے بچوں کو اغوا کرکے جبر اور دبائو کا ماحول پیدا کردیتے تھے تب بھی لوگ عدالتوں میں حاضری ہوتے تھے۔ شہر میں ٹریفک دستیاب ہو یا نہ ہو، ان کے پیروں میں عدالتی سیڑھیاں چڑھنے کی طاقت ہو یا نہ ہو، وہ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوں یا لوگوں کے کاندھوں کے سہارے یا کرسیوں پر بیٹھ کر لوگوں کے اٹھائے ہوئے ہاتھوں کی مدد سے کٹہرے تک پہنچنے کے قابل ہوں عدالت کو ان باتوں سے غرض نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب عمران خان کی جان کو خطرہ ہے یا نہیں یہ عدالتوں کے موضوع ہیں۔ اس بنا پر گاڑی میں بیٹھے بیٹھے بھی حاضری قبول کی جاسکتی ہے بس ملزم کو عمران خان جتنا مقبول ہونا چاہیے۔ یکساں انصاف اب ہماری عدالتوںکے رحجان میں کہیں نظر نہیں آتا اور نہ ہی یہ فیصلوں کی اولین شرط رہا ہے۔ اب ہماری عدالتیں کھلے عام اور دھڑلے سے عام آدمی اور مقبول لیڈر میں فرق کرتی ہیں۔ اب ہماری عدالتوں سے جتھوں کے ہمراہ آنے والے جماعتی مقبول رہنما، آمر اور ڈکٹیٹر اور بااثر باثروت افراد ہی اپنا من پسند فیصلہ حاصل کرسکتے ہیں وہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو تو خیر نہیں بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جج صاحبان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ جرنیلوں کی طرح وہ بھی حاضر سروس اور بعد از ریٹائر منٹ زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔
اب سے پہلے جمہوری سیاست کرنے کے لیے سیاستدان کا مال ودولت بے حساب خرچ کرنا ضروری تھا۔ میدان سیاست ایک ایسا اکھاڑہ تھا جس میں دولت کی دخل اندازی فیصلہ کن کردار ادا کرتی تھی۔ رقم جس حساب سے خرچ کی جائے اقتدار اسی حساب سے قریب یا دور ہو گا۔ یہ معاملہ کسی گراوٹ کا نتیجہ نہیں بلکہ جمہوری اخلاقیات کا حصہ ہے۔ اب اس میں عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے ججوں کے نرم گرم، ان کی طبیعت سے موزوں اور اسٹیبلشمنٹ اور کسی اور فریق کے دبائو کے تحت کیے گئے فیصلے دولت سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے بعض جج صاحبان کسی ایک جماعت اور مقبول لیڈر کے حق میں ہونے کے حوالے سے بڑا نام کمارہے ہیں اور اس پر شرمسار بھی نہیں ہیں۔ جج ایک سیاسی جماعت کے حق میں اور دوسری سیاسی جماعت کے خلاف ہونے کی شہرت اختیار کرلیں اور ان کے فیصلے مسلسل اس خیال کی تائید میں کوشاں نظر آتے ہوں اب ان باتوں کی کھیل تماشوں سے زیادہ اہمیت اور حیثیت نہیں رہی۔