ڈیجیٹل مردم شماری اور پیپلز پارٹی کی پریشانی

563

2018 میں جب عمران خان کی حکومت کی تشکیل ہورہی تھی تو اس وقت ملک کی تمام چھوٹی جماعتوں کی طرف سے عمران خان کو اپنے لیے حمایت حاصل کرنا تھا ملک کی جو قوتیں اس انتخاب پر اس طرح اثر انداز ہوئیں کہ ان تمام پولنگ ایجنٹوں کو نکال دیا گیا جنہوں نے گنتی کے طریقۂ کار پر اعتراض کیا تھا اس لیے کہ پریزائڈنگ آفیسر کے ساتھ کوئی خلائی مخلوق کا کارندہ بھی بیلٹ پیپر کی گنتی میں شریک ہوتا کہیں کہیں ایسا بھی ہوا کہ پریزائڈنگ آفیسرکو بھی نکال دیا گیا اور تنہا وردی والوں نے ووٹوں کی گنتی کی، جب کسی پولنگ ایجنٹ نے یہ کہا کہ ہمیں بیلٹ پیپر دکھایا جائے تو انہیں جواب دیا گیا کہ اسی طرح گنتی ہوگی آپ کو بیٹھنا ہو تو بیٹھیں ورنہ جاسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی جیت تو گئی لیکن یہ جیت فطری اور حقیقی جیت نہ تھی، بلکہ ایک طرح سے مصنوعی جیت تھی، پی ٹی آئی کے ایوان میں اتنی اکثریت نہیں تھی کہ اکیلے حکومت بنا پاتی اسی لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے حکومت سازی کے لیے معاونت دلائی گئی اس میں ایم کیو ایم سمیت ملک کی تمام چھوٹی جماعتیں شامل تھیں۔
جس وقت ایم کیو ایم سے پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بات چیت چل رہی تھی تو پوری ایم کیو ایم انڈر شاک تھی کہ اس کی کراچی کی دس سے زائد نشستیں چھین لی گئی تھیں اور وہ اب بھی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہماری کراچی کی 14قومی کی نشستیں ہم سے چھینی گئیں ہیں لیکن ایم کیو ایم نے اپنی کھوئی ہوئی نشستوں کی بازیابی کے لیے اس طرح کی کوئی تحریک نہیں چلائی جس طرح آج جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن اپنی چھینی ہوئی بیس نشستوں کے لیے قانون کے اندر رہتے ہوئے مہم چلارہے ہیں ان میں سے کچھ نشستوں پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کیا ہوا ہے اور کچھ سیٹوں پر کیس چلنا ہے گیارہ نشستیں جو امیدواروں کے انتقال کی وجہ سے رہ گئیں تھیں اس کے انتخاب کے شیڈول کا بھی اعلان ہوگیا ہے، اسی دوران امید ہے کہ الیکشن کمیشن بیس نشستوں کا بھی فیصلہ کردے گا۔ جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ جس طرح آج حافظ نعیم الرحمن الیکشن کمیشن سے اپنی چھینی ہوئی نشستوں کے حوالے سے پی پی پی اور الیکشن کمیشن کے گٹھ جوڑ کے خلاف بھرپور مہم چلارہے ہیں اسی طرح 2018 کے عام انتخاب میں کراچی سے بقول ایم کیو ایم کہ ان کی 14نشستیں چھین لی گئیں اور وہ ان نشستوں کے حصول کے لیے بھرپور آواز اٹھاتے، تحریک چلاتے جبکہ ان کے پاس کراچی کے عوام کی حمایت اور اسٹریٹ پاور بھی ہے لیکن نہ جانے کیوں یہ خاموش رہے اور جتنی نشستیں ان کو مل گئیں اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ گئے کہ سامنے جو قوت تھی اس سے مقابلہ کرنے کی ہمت نہ تھی۔
ن لیگ کے دور میں ملک میں جو مردم شماری ہوئی اس کے نتائج سے جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور دیگر وہ سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں جو کراچی میں اپنا اسٹیک رکھتی تھیں مطمئن نہ تھیں انہیں اس پر شدید تحفظات تھے۔ جب یہ مردم شماری ہورہی تھی تو ہر طرف سے یہی آواز سنائی دیتی تھی کہ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زائد ہے، لیکن مردم شماری کا جو نتیجہ آیا اس میں کراچی کی آبادی کو ڈیڑھ کروڑ بتایا گیا اس کے بر خلاف سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کو بہت زیادہ دکھایا گیا سندھ کے دیہی علاقوں میں آبادی کا اضافہ 400فی صد سے 600فی صد بتایا گیا اور کراچی کا اضافہ 85فی صد دکھایا گیا جبکہ عملاً صورتحال یہ ہے کہ پچھلے چار عشروں سے سندھ میں بڑی تعداد میں لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف آرہے ہیں، شہری اور دیہی آبادی کا توازن تبدیل ہورہا ہے ایسا کیوں ہورہا ہے اس کا سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، پہلی بات تو یہ کہ پیپلز پارٹی بھٹو کی پھانسی کے نتیجے میں سندھیوں کے جذبات کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے عام سندھیوں کے سامنے وہ اپنے آپ کو بھٹو کی سیاست کے وارث کے طور پر پیش کرتی ہے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے دوسری بات یہ کہ اس کامیابی کے بعد وہ وفاق کو بلیک میل کرنے کے لیے سندھ کارڈ استعمال کرتی ہے ان دونوں مقاصد کے حصول کے لیے اسے ہر انتخاب میں سندھ میں واضح طور پر کامیابی حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اس کے لیے ہر دفعہ مردم شماری میں اپنی طویل حکمرانی کا فائدہ اٹھا کر کچھ ٹمپرنگ اور کچھ انجینئرنگ کرتی ہے پاکستان کے کسی اور صوبے ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ سے صوبہ سندھ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تعداد زمینی حقائق سے بالکل مختلف ہوتی ہے اگر صوبہ سندھ میں صحیح مردم شماری ہو جائے تو کراچی اور حیدرآباد کی قومی اور صوبائی کی نشستیں بڑھ جائیں گی اور اندرون سندھ میں یہ نشستیں کم ہو جائیں گی اس سے پیپلز پارٹی کو سیاسی نقصان ہوگا اسی لیے آج کل پی پی پی کے لیڈروں کے مردم شماری کے خلاف بڑے غصے اور دھمکی والے بیانات آرہے ہیں۔
اب آئیے دوبارہ 2018 کی حکومت سازی کے مراحل کو دیکھتے ہیں تحریک انصاف کی حکومت کو قائم کرنے کے لیے اور سیاسی قوتوں سے تعاون کی ضرورت تھی ہم یہاں صرف ایم کیو ایم کے حوالے سے بات کریں گے کہ ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے لیے اپنی طرف سے جو شرائط پیش کیں ان میں سب سے اول شرط یہ تھی مردم شماری بالکل غلط ہوئی ہے اس لیے مردم شماری دوبارہ شفاف طریقے سے کرائی جائے اس
میں یہ بات بھی جملہ معترضہ کے طور پر سمجھ لیا جائے کہ جو مقتدر قوتیں الیکشن، اس کی مہم، اس کے نتائج اور پھر حکومت سازی میں اہم رول پلے کرتی ہیں وہ مردم شماری میں سندھ کے شہروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر کیوں خاموش رہتی ہیں۔ بہر حال پھر مذاکرات میں یہ طے ہوا کہ اگلے الیکشن سے پہلے ملک میں مردم شماری کرائی جائے گی اور 2023 کا انتخاب نئی مردم شماری کے تحت ہوگا کہ اس کے نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیاں سامنے آئیں گی، اب تو کراچی کی آبادی تین کروڑ ہو گئی ہے اگر صحیح مردم شماری ہوگئی تو کراچی اور حیدرآباد کی قومی اور صوبائی کی نشستیں پہلے سے کم از کم دوگنی نہیں تو ڈیڑھ گنا ضرور بڑھ جائیں گی اور سندھ کے اندرونی دیہاتوں کی نشستیں کم ہو جائیں گی۔ اس مردم شماری کے حوالے سے ایک سیدھی سی بات یہ ہے کہ جو فرد جہاں رہتا ہے اسے وہیں شمار کیا جائے، مثلاً کوئی شخص روزگار کے حصول کے سلسلے میں جام شورو سے کراچی میں آکر رہ رہا ہے اور اس کے کارڈ پر دو پتے لکھے ہوئے ہیں ایک جام شورو کا دوسرا کراچی کا پتا۔ مردم شماری میں اس کا شمار کراچی میں کیا جانا چاہیے لیکن عملاً ایسا ہو نہیں رہا۔ اسی لیے بعض حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ صوبہ سندھ میں تو فوج کی نگرانی میں مردم شماری کرائی جائے۔ بلاول زرداری، مراد علی شاہ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما اور کچھ علاقائی جماعتوں کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ بھلے سندھ کے شہری کراچی میں جا کر ملازمتیں کریں وہاں رہائش اختیار کریں لیکن مردم شماری اور انتخابی فہرستوں میں ان کا اور ان کی فیملی کا نام اندرون سندھ ہی میں درج کیے جائیں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور سندھ کے دیگر شہری علاقوں کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی ہے پیپلز پارٹی سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ اپنی متعصبانہ کو ختم کرنا چاہیے ورنہ آگے چل کر اس کے بڑے خوفناک نتائج ہو سکتے ہیں۔