قبائل کے مسائل

419

قارئین آپ یہ جان کر یقینا حیران ہوں گے کہ دور دراز کے قبائلی علاقے تو ایک طرف پشاور، چارسدہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے قریبی ملحقہ قبائلی اضلاع بھی پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ اس بات میں کوئی شک اور دو آراء نہیں ہیں کہ انضمام کا مقصد ایک کروڑ قبائل کو قومی دھارے میں لاکر انہیں بھی ملک کے ترقی یافتہ شہری علاقوں کے برابرحقوق دلانا تھا لیکن قبائل کے حوالے سے اب تک کسی کو بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ قبائل کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی ایک واضح مثال پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں 24گھنٹوں میں صرف چارگھنٹوں اور وہ بھی وقفے وقفے سے بجلی کی ترسیل ہے۔ بجلی کا براہ راست تعلق چونکہ فراہمی آب اور گھریلو ضروریات مثلاً ریفریجیریٹر، لائیٹنگ، پنکھوں اور دیگر برقی آلات کے استعمال سے ہے اس لیے قبائل کو بجلی سے محروم رکھنے کے خلاف قبائل میں مسلسل غم وغصہ بڑھتا جا رہا ہے جس کی ایک جھلک چند دن پہلے پاک افغان طورخم شاہراہ پر مقامی کوکی خیل قبائل کی جانب سے جمرود گرڈ اسٹیشن کا گھیرائو اور تین روز تک جاری رہنے والے شدید احتجاج کی صورت میں سامنے آئی۔
اسی طرح ضلع خیبر کے قبائلی عوام کی جانب سے پشاور کی سرحد پر واقع بی آر ٹی بس سروس، سوئی گیس اور ضلع خیبر سے ملحقہ حیات آباد کو ضلع خیبر کی تحصیلوں جمرود اور باڑہ کو جمرود باڑہ روڈ جو حیات آباد فیز 7اور فیز 6 کے ساتھ گزرتا ہے کو ان دو فیزوں کے ذریعے پشاور سے لنک کرنے کے جائز مطالبات کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے جس سے مقامی قبائل یہ سوچنے پر مجبور ہورہے ہیں کہ اگر قبائلی علاقوں کی ایف سی آر کے سیاہ اور ظالمانہ نظام سے جان چھوٹ چکی ہے تو پھر ان کی ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے گلو خلاصی کیوں نہیں ہورہی ہے اور ان مسائل پر متعلقہ فورموں کی جانب سے کوئی قابل عمل توجہ کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ ضلع خیبر کی تین تحصیلیں لنڈی کوتل، جمرود اور باڑہ کے علاوہ افغانستان سے براستہ طورخم پشاور کے ساتھ ساری آمدو رفت پشاور طورخم شاہراہ کے ذریعے ہوتی ہے جس پر بے پناہ رش کی وجہ سے جہاں حادثات روزمرہ کا معمول ہیں وہاں جمرود بالخصوص کارخانو پھاٹک پر دونوں جانب ٹریفک جام سے مریض، خواتین اور اسکول وکالج کے بچے روزانہ جس ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہے۔ اس ضمن میں جمرود سے ورسک کے درمیان ایک مرکزی رابطہ سڑک جہاں ضلع پشاور کے کئی دیہات اور تحصیل جمرود کے علاقوں بشمول ریگی ماڈل ٹائون اور ناصر باغ کے راستے ڈی ایچ اے، شیخ یاسین، عسکری 5اور 6 اور کئی دیگر ہائوسنگ اسکیموں کو ملاتی ہے وہاں یہ سڑک ان علاقوں کو ورسک ڈیم اور ضلع مہمند کے علاوہ چارسدہ، باجوڑ اور دیر پائین وبالا تک کے اضلاع سے بھی ملاتی ہے لیکن یہ شاہراہ جو ان علاقوں کو جمرود کے راستے باڑہ اور متنی تک کے علاقوں کو بھی ملانے کا ایک اہم ذریعہ ہے بدقسمتی سے اس اہم مرکزی شاہ راہ کا تین چار کلومیٹر کا فاصلہ پچھلے کئی سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن خداجانے اس اہم رابطہ سڑک کے اس مختصر حصے کی تعمیر اور پختگی میں متعلقہ ادارے کیوں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں حالانکہ یہ سڑک اسٹرٹیجک لحاظ سے بھی اہمیت کی حامل ہے۔
اسی طرح ضلع خیبر سے محض چند گز کے فاصلے پر حیات آباد، کارخانو مارکیٹ اور حیات آباد انڈسٹریل اسٹیٹ میں سوئی گیس اور بجلی کی بلا تعطل موجودگی کے باوجود پشاور کے ساتھ واقع ضلع خیبر اور اس کی دو تحصیلوں جمرود اور باڑہ کو ان دونوں بنیادی ضروریات سے دیدہ دانستہ محروم رکھا جارہا ہے۔ ضلع خیبر کی ان تو متذکرہ تحصیلوں جو پشاورکے ساتھ جڑی ہوئی ہیں کو اگر بی آر ٹی کے ساتھ لنک کیا جائے تو اس سے بھی اگر ایک طرف مقامی قبائل بالخصوص خواتین، معمر افراد اور طلبہ وطالبات کو آمدو رفت کی معیاری سہولت دستیاب ہوگی تو دوسری جانب اس سے قبائل میں یہ احساس بھی پیدا ہوگا کہ انضمام کے بعد انہیں بھی ان سہولتوں میں شریک کیا جارہا ہے جو انضمام سے پہلے صرف بندوبستی علاقوں کے شہریوں کے لیے مخصوص تھیں۔
یہاں اس امر کی جانب بھی اشارہ خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ قبائلی اضلاع میں بے تحاشا قیمتی معدنیات کے علاوہ یہاں زراعت، باغبانی، گلہ بانی، مگس بانی، مرغ بانی، قیمتی جنگلات اور سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ مزید یہ کہ اگر ان علاقوں میں چھوٹے صنعتی زون اور گھریلو صنعتوں کے قیام کے علاوہ افغانستان کے ساتھ بارہ سے زائد سرحدی پوائنٹس کو مقامی آبادی کے کاروبار اور دوطرفہ آمد ورفت کے لیے کھولا جائے اور قبائل کے لیے دو طرفہ آمد ورفت کو پاسپورٹ، ویزے اور دیگر سفری دستاویزات سے مبراء قرار دیا جائے تو اس سے نہ صرف قبائل کو بہتر روزگار کے مواقع دستیاب ہوں گے بلکہ اس سے پاک افغان تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ قبائل کی احساس محرومی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔