…!مرحبا ماہ رمضان

1256

ہماری زندگی میں ایک بار پھر رمضان کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ جسے خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰؐ کے شہر عظیم یعنی عظمتوں والا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس مہینے کی عظمت و برکت کی اصل وجہ انسانیت کے نام خالق انسان و کائنات کے آخری پیغام قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہے۔ اللہ ربّ العزت نے یہ بتایا کہ رمضان المبارک کی ایک رات تھی جس میں اللہ تعالیٰ نے قلب محمدؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ جبریل امین غار حرا میں سورئہ علق کی پہلی پانچ آیتوں کی تعلیم دی اس رات کو لیلتہ القدر اور لیلتہ المبارک قرار دیا، گویا یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ یعنی محمد بن عبداللہ، محمد رسول اللہ اور نبی اللہ کے منصب پر فائز ہوئے اور 23 برسوں تک وحی کے ذریعے ملاء اعلیٰ سے انسانیت کا براہِ راست رابطہ قائم رہا ہے، چونکہ ماہ رمضان المبارک سے نزول قرآن کا آغاز ہوا ہے اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پسندیدہ عبادت ’’صوم‘‘ کو فرض کا آغاز ہوا ہے اس لیے اس مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی پسندیدہ عبادت ’’صوم‘‘ کو فرض کیا اور قیام اللیل کی ترغیب دی جس میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے، روزے، قیام اللیل اور قرآن میں ایک تعلق اسی وجہ سے حضور اکرمؐ کو اس مہینے کا انتظار رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے صحابہ کو اس مہینے کا خصوصی استقبال کرنے کی ہدایت کی، آپؐ نے اس مہینے کو صبر کا مہینہ اور مواساۃ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ اس سے ہمیں روزے کی روح سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ صبر کا تعلق حق و باطل کے درمیان کش مکش اور راہ حق میں ثابت قدمی ہے اور مواساۃ کا تعلق دوسرے انسانوں کا سہارا بننے، اخوت و محبت کے جذبات کو پروان چڑھا کر انسانی معاشرے کو عدل اور انصاف کی بنیاد پر قائم کرنے سے ہے۔ اس لیے یہ مہینہ حق و باطل کی کش مکش کی یادگار ہے۔ قرآن مجید کا پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ کی کبریائی قائم کرو یعنی جو انسانوں کے خدا بن گئے ہیں ان کی خدائی کا انکار کرو اور اس بات کا اعلان کرو اور شہادت دو کہ اللہ اس کائنات کا، انسانوں کا، ہمارا اور تمہارا ربّ اور حاکم ہے۔ وہی بادشاہ ہے، وہی مالک و صاحب اقتدار ہے جو اپنی ربوبیت، الوبیت اور اقتدار و حکمرانی کا دعویٰ کرے گا وہ اللہ کا باغی و سرکش ہے۔ اسے طاغوت قرار دے کر اس کا انکار کرنا اور اللہ کی بندگی و غلامی کی شہادت دینا بندئہ مومن کا فرض ہے۔ یہی راہ حق ہے یہی صراط مسقیم ہے یہی ان لوگوں کا راستہ ہے جن کو اللہ کی نعمتیں عطا کی گئیں اور اصل نعمت اللہ کی رضا اور اس کی جنت ہے، اس جدوجہد اور کش مکش میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جو طاقت اور توانائی چاہیے اس کے لیے سال بھر کے ایک مہینے میں خصوصی پروگرام دیا گیا ہے۔ اس خصوصی پروگرام سے فائدہ اٹھانے کا موثر ترین نسخہ رسول اکرمؐ نے یہ بتایا ہے کہ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔ رات میں قیام اور نوافل کی ادائیگی کی روح بھی ایمان اور احتساب کو بتایا گیا ہے۔ ایمان اور احتساب کے بغیر حق و باطل کی کش مکش میں نہ انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اجتماعی طور پر اس لیے رمضان کا مہینہ حق و باطل کی کش مکش کی علامت بھی ہے۔ اسی مہینے سے قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ قرآن حق و باطل کی کش مکش انسانی معاشروں میں پیدا کرتا ہے۔ رسول اکرمؐ کی پوری زندگی حق و باطل اور کفر و اسلام میںکش مکش کی رواداد ہے۔ ماہ رمضان المبارک نزول قرآن کے ساتھ معرکہ بدر اور فتح مکہ کا مہینہ ہے۔ لیکن چوں کہ دنیا پرستی نے قرآن کی ہدایات، رسول اکرمؐ کی تعلیمات کی حقیقی روح سے محروم کردیا ہے اور اہل ایمان کو طاقت عطا کرنے والی عبادات رسمی اور رواجی بن گئی ہیں اس لیے مسلمان اپنے مقصد وجود کو بھول گیا ہے مسلمان اور امت مسلمہ چونکہ اپنے اصل مقصد وجود سے غافل ہوگئی ہے اس لیے اس کی گردنوں پر اس کے ہم نام ظالم و جابر اور بدعنوان حکمران مسلط ہوگئے ہیں یا اہل کفر نے عالم اسلام کو اور اپنی مسلم آبادی کو غلام بنایا ہوا ہے۔ امت مسلمہ اور عالم اسلام سیاسی، اقتصادی، اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ رمضان المبارک جیسے عظیم مہینے کا پیغام بھول گئے ہیں۔ اسی وجہ سے قبلہ اول پر یہود قابض ہیں، کشمیر اور روہنگیا کا المیہ جنم لے رہا ہے۔ افغانستان، عراق، شام جیسے مسلمان ممالک تباہ کردیے گئے ہیں۔ پاکستان کو اسلام کاقلعہ کہا جاتا ہے لیکن اس کے وجود اور بقا کے بارے میں خطرات پیدا ہوگئے ہیں، رمضان کا مہینہ سیرت و کردار کی تربیت کا مہینہ ہے تا کہ عادلانہ نظام حکومت قائم کیا جائے۔ انصاف کی حکمرانی ہو لیکن حکمرانی کی سطح پر بدعنوانی، کرپشن، اور قومی خزانے کی لوٹ مار ہمارا شعار بن گیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھو گے تراویح کا اہتمام کرو گے تو نجات پائو گے لیکن اپنا احتساب کرنے کا شعور ہی موجود نہیں، حضرت عمرؓ نے کہا کہ اپنا احتساب کرو اس سے پہلے کہ تمہارا احتساب کیا جائے۔ لیکن ہم قومی اور اجتماعی سطح پر احتساب کا نظام قائم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ رمضان کا پیغام احتساب بھی ہے۔ اس لیے کہ ایمان و اسلام کی بنیاد عقیدہ آخرت پر قائم ہے، آخرت پر ایمان کے بغیر مضبوط سیرت و کردار اور اخلاقی تربیت ناممکن ہے۔ آخرت میں سب سے پہلے ان لوگوں کا احتساب ہوگا جو مقتدر اور طاقتور ہیں جس دن اللہ کی عدالت قائم کی جائے گی اور حکمرانوں کا اقتدار ختم کردیاجائے گا جس دن اعلان کیا جائے گا کہاں ہیں ملوک، کہاں ہیں بادشاہ جو انسانوں پر اپنی حکومت قائم کرتے تھے۔ اس دن ان کا کا کوئی سہارا نہیں ہوگا یہی آخرت پر ایمان تھا جس نے رسول اکرمؐ کے صحابہ کو جو پور یہ نشین تھے اتنی طاقت عطا کی کہ وہ آدھی دنیا کے امام بن گئے۔ جنہوں نے امانت داری اور دیانت کے وہ نمونے قائم کیے جس نے دلوںکو فتح کرلیا۔ آج بھی بدر کا میدان سج سکتا ہے۔ امت مسلمہ اپنا عروج دوبارہ حاصل کرسکتی ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ اس کی بشارت ہمیں رسول اکرمؐ نے دی ہے۔ لیکن شرط وہی ہے کہ رمضان کے حقیقی پیغام کو سمجھا جائے۔ رمضان کا پیغام قرآن کا پیغام ہے۔ رمضان کے روزے کی فضیلت اس مقصد کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو نزول قرآن کا مقصد ہے اس مقصد سے آگاہی کے لیے رسول اکرمؐ کے اسوئہ حسنہ اور سیرت سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔ امت مسلمہ بحیثیت مجموعی انتشار کا شکار ہے۔ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی بحران، سماجی و معاشرتی فساد ہمارا مقتدر بن چکا ہے۔ عالم اسلام باالعموم اور پاکستان باالخصوص کا حکمراں طبقہ بے جس اور ظالم ہے، مہنگائی اور بے روزگاری نے جس طرح کا فساد پیدا کیا ہے۔ اس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے ساتھ قدرتی آفات اور وبائیں ہیں جو اللہ کی ناراضی کی خبر دے رہی ہیں۔ یہ وقت توبہ اور اپنی اصلاح آپ کی دعوت دے رہا ہے۔ امت مسلمہ اور پاکستانی قوم اس رمضان کو تبدیلی کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔ خود احتسابی رمضان کا حقیقی پیغام ہے۔ خود احتسابی کے لیے پیغام انقلاب یعنی قرآن مجید سے تعلق قائم کیا جانا ضروری ہے۔ اجتماعی جرائم سے توبہ ضروری ہے رمضان کے بابرکت لمحات کو اجتماعی توبہ کے لیے مددگار بنایا جاسکتا ہے۔