خلیج عرب میں قدیم ترین موتیوں کا شہردریافت

795

ابوظبی: متحدہ عرب امارات میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے ایک گروپ نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں ام القوین امارت کے بالکل مشرق میں واقع جزیرہ سینیہ پر خلیج عرب میں موتیوں کا سب سے قدیم قصبہ ملا ہے۔ جہاں صدیوں سے مقامی لوگوں کے روزگار کا انحصار سمندر سے موتیوں کی تلاش پر تھا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق اگرچہ پرانے تاریخی متون میں موتیوں والے قصبوں کا تذکرہ ملتا ہے مگر یہ پہلی ایسی دریافت ہے۔تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قصبہ “متحدہ عرب امارات میں اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی شہری آبادی والی بستی ہے” ، اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں ہزاروں باشندے رہتے رہے ہیں، جن میں سے اکثریت موتیوں کی صنعت پر انحصار کرتے تھے۔

ام القوین محکمہ سیاحت اور آثار قدیمہ کے مطابق 12 ہیکٹرپر محیط یہ آثار قدیمہ چھٹی صدی کے آخر اور آٹھویں صدی کے وسط کے درمیانی مدت سے تعلق رکھتے ہیں جو ممکنہ طور پر اسلامی تہذیب کے پھیلا سے پہلے کے ہیں۔قصبے پر مکانات ساحل سمندر کی مقامی چٹانوں اور آس پاس کے ماحول کے مواد سے بنائے گئے تھے اور ان کی چھتیں کھجور کے تنے سے بنی تھیں۔

متحدہ عرب امارات یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ٹموتھی پاور، جو اس کھدائی کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، نے کہا کہ اگرچہ یہ مانا گیا ہے کہ اس خطے میں اور بھی موتیوں کی بستیاں کی موجود ہیں، لیکن یہ خاص طور پر منفرد ہے۔ نہ صرف قدامت اور سائز کی وجہ سے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ موتیوں کی تلاش کے لیے عارضی یا موسمی بستی نہیں تھی بلکہ یہ شہر سال بھر چلتا رہتا تھا۔”

پاور نے کہا کہ قصبے کے رہائشی ممکنہ طور پر عیسائی تھے، کیونکہ یہ بستی ایک قدیم عیسائی خانقاہ کے قریب واقع ہے جسے ابھی پچھلے سال دریافت کیا گیا تھا۔ عیسائی خانقاہ تقریبا 1,400 سال پرانی ہے۔ام القوین محکمہ سیاحت کے مطابق، موتیوں کی صنعت، جس میں سمندروں اور جھیلوں میں پائے جانے والی سیپیوں سے موتی برآمد کرنے والے غوطہ خور شامل ہیں، 7,000 سال سے زیادہ عرصے سے خطے کے اس ورثے کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم تاریخی حوالوں سے جانتے ہیں کہ اس دور میں موتیوں کی دیگر اہم منڈیاں بھی تھیں،”لیکن یہ واضح ہے کہ نئے دریافت ہونے والے قصبے کے لیے موتی ایک اہم صنعت تھی۔انہوں نے کہا کہ موتیوں کے کاروبار کے عروج کے اوقات میں، لوگوں کی بڑی تعداد اس صنعت سے وابستہ تھی۔