پاک کشمیر تعلقات اور بدلتے حالات  (آخری حصہ)

603

بھارت 75 برس سے کشمیریوں کے دل جیتنے اور ان کی انڈینائزیشن کے لیے جامع منصوبہ بندی کرتا رہا ہے۔ ثقافتی یلغار، کشمیری قیادت کو اقتدار کا لالچ دینا، وہاں کے مسلمانوں کو تقسیم کرنا اور عوام کو ضروریات زندگی کے علاوہ صنعتی قرضوںپر سبسڈی دینا اس منصوبہ بندی کا حصہ رہا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی نیم خودمختاری، سوا ارب انسانی آبادی کے ملک بھارت کے اندر معاشی ترقی کے مواقع اور مراعات سے کشمیریوں کی بھارت سے ذہنی ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی اور وہ ہر سطح پر اپنی آزادی کے لیے کوشاں رہے۔ بھارت 1990 سے 2019 تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری عسکریت اور عوامی مزاحمت کی وجہ سے سخت دبائو میں تھا۔ اس لیے بھارت ریاست میں جاری تحریک سے جان چھڑانے کے لیے مقبوضہ ریاست کو مزید خود مختاری دینے کے لیے حریت قیادت کو بات چیت کی پیشکش کرتا رہا۔ بھارتی وزیر اعظم پی وی نرسمہاراؤ نے 4نومبر 1995 کو اعلان کیا کہ بھارت کشمیریوں کو تاحد آسمان مزید خود مختاری دینے کے لیے تیار ہے۔ اس کے بعد بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے 19 اپریل 2003 کو سری نگر میں کشمیریوں کو بات چیت کی پیشکش کی اور اعلان کیا کہ وہ انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت کے اصولوں کے تحت کشمیریوں کو مزید خود مختاری دینے کے لیے تیار ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے ساتھ امن اور دوستی کے لیے ہاتھ بڑھانے کا اعلان بھی کیا۔
کشمیریوں کو مذاکرات اور مزید خود مختاری پر آمادہ کرنے کے لیے بھارت کے اعلیٰ سطحی وفود کشمیر آتے رہے۔ ان تمام بھارتی کوششوں کے جواب میں کشمیر کے طول وعرض سے بیک آواز ایک ہی نعرہ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ لگتا رہا مسلمانان کشمیر نے پاکستان کے بغیر کسی بھی بات چیت میں شامل ہونے اور آزادی سے کم کسی بھی بات پر سمجھوتا کرنے سے انکار کرتے ہوئے تحریک کو جاری رکھا۔ پاکستان کے ساتھ محبت کی پاداش میں بھارتی افواج اور انتہا پسند ہندوں جنونیوں نے 1947 سے لے کر آج تک ظلم و درندگی کی انتہا کرکے لاکھوں مسلمانوں کو شہید اور پاکستان ہجرت پر مجبور کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ تحریک کے دوران بھارتی افواج نے آگ اور خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تقریباً ایک لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا۔ ہزاروں عورتیں بیوہ اور ایک لاکھ کے قریب بچے یتیم ہو گئے۔ بھارت نے تحریک آزادیٔ کشمیر کو کچلنے کے لیے کشمیری مسلمانوں کی اربوں روپے کی مالیت کی جائدادیں جلا کر اور بارود سے اُڑاکر خاکسترکیں۔ ان مصائب وآلام کے باوجود کشمیر کے مرد و زن خصوصاً نوجوان سرینگر سے لے کر بھارت کے کھیل کے میدانوں اور تعلیمی اداروں تک پاکستانی پرچم لہرا کر تحریک آزادیٔ اور تکمیل پاکستان کے لیے سر بکف رہے۔ کشمیری مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے قول وفعل سے بھارت سے نفرت اور ملت اسلامیہ پاکستان سے والہانہ اور غیر متزلزل محبت کا تسلسل کے ساتھ ثبوت دیا ہے۔ بھارتی ظلم و زیادتی کی شکار کشمیری عفت ماب مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے پاکستانی کے سبز ہلالی پرچم کو اپنے سروں کا آنچل اور شہیدوں کا کفن بنا دیا۔ کشمیر کی مسلم بیٹیاں ایک ہاتھ میں پتھر اور دوسرے میں پاکستانی پرچم لے کر بھارتی افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عالم اسلام اور پاکستان کو مدد کے لیے پکارتی رہیں۔ تحریک
آزادیٔ جموں وکشمیر کو 1947 سے لے کر آج تک ہمیشہ پاکستانی عوام کی بھر پور حمایت حاصل رہی ہے پاکستانی عوام نے کشمیرکی آزادی اور تکمیل پاکستان کے لیے پاکستان کی مذہبی اور عسکری تنظیموں کے ساتھ غیر معمولی جانی اور مالی تعاون کیا کشمیر کے طول و عرض میں شہداء کے ہر قبرستان میں پاکستانی ماؤں کے لخت جگر دفن ہیں لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ حکومت پاکستان کی کمزور اور اسٹرٹیجک ریسٹرینٹ کشمیر پالیسی کی وجہ سے تحریک آزادیٔ کشمیر مناسب اوقات پر مطلوبہ امداد اور موثر سفارتی ترجمانی سے محروم رہی جس وجہ سے کشمیر پر بھارتی قبضے کا خاتمہ نہ ہوسکا اور کشمیری مسلمانوں کی تاریخی اور مثالی جدوجہدکے باوجود اقوام عالم نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ اس کے برعکس بھارتی حکومت نے موثر سفارت کاری سے ’’انکریڈیبل انڈیا‘‘ اور ’’شائنگ انڈیا‘‘ کے بیانیے کو فروغ دے کر دنیا بھر میںملک کی سافٹ امیج بلڈنگ کرکے دنیا بھر میں اثر رسوخ قائم کرلیا اور آج بھارت مغربی اور اسلامی دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ دفاعی اور معاشی شراکت داری کی وجہ سے ایک ابھرتی ہوئی معاشی اور دفاعی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ ان ہی حالات میں بھارت نے 5اگست 2019 کو آئین ہند میں تبدیلی لا کر دفعہ 370 اور 35A کو ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی داخلی خود مختاری سلب کرتے ہوئے مقبوضہ ریاست کو دو یونین ٹریٹریز ’’جموںکشمیر اور لداخ‘‘ میں تقسیم کر کے آزادکشمیر کو ہتھیانے کا اعلان کردیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے سندھ طاس معاہدے کے خاتمے اور سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے عزائم آشکار ہوگئے۔ پاکستان اور کشمیر جہاں ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی رشتوں میں بندھے ہیں وہاں یہ دونوں خطے معاشی اور دفاعی اعتبار سے ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے دفاع کے لیے ایک مضبوط حصار اور معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کے کھیتوں کو سیراب کرنے کا واحد ذریعہ کشمیر کے پہاڑوں سے بہتا ہوا پانی ہو یا پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے سی پیک کا منصوبہ ہردو کا تعلق ریاست جموں کشمیر سے ہے۔ ریاست کے صرف آزاد علاقے میں ہی اگر مناسب منصوبہ بندی کے تحت ڈیم بنا کر اور ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس لگائے جائیں تو پاکستان کے توانائی بحران کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ان ہی حقائق کی وجہ سے ’’کشمیر‘‘ کو ’’پاکستان کی شہ رگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت 5اگست 2019 کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے، وہاں کے مسلم کلچر کو ختم کرکے کشمیر کو جسے ’’سرزمین اولیا‘‘ کہا جاتا ہے کو ’’دیوی دیوتائوں کی دھرتی‘‘ میں تبدیل کرنے کے در پے ہے۔ بھارت ریاستی دہشت گرد ی سے کشمیری مسلمانوںکو صفحہ ہستی سے مٹانے اور آزاد خطے کے عوام کو پاکستان سے دور کرنے کے لیے خطر ناک اقدامات کررہا ہے۔ بھارت کے خوفناک اقدامات اور عزائم کے باوجود حکومت پاکستان کشمیریوں اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میںکشمیر کے لیے کوئی بامقصد اقدام نہیں اٹھارہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور آزاد کشمیر کی حکومت اور قیادت بھی خاموش ہے۔ اس پراسرار خاموشی اور منفی رویوں کے باعث پاکستان سے والہانہ محبت وعقیدت کے باوجود منقسم ریاست جموں وکشمیر کے عوام میں خدشات، بداعتمادی اور مایوسی جنم لے رہی ہے جس سے پاکستان اور کشمیر کے درمیان نظریاتی رشتے کمزور ہو رہے ہیں۔ ہندوتوا نظریہ کی حامل بھارتی حکومت کے خطرناک منصوبوں کے پیش نظر آج کشمیری مسلمانوں کا تشخص و قومی وجود، تحریک آزادیٔ کشمیر کا تسلسل اور اسلامی اقدار انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔ ان حالات میں کشمیری مسلمان انتہائی خوف زدہ اور مایوس ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا حوصلہ ٹوٹ رہا ہے۔ اس مایوسی کے عالم میں اگر مقبوضہ کشمیر کے مسلمان کا حوصلہ مکمل ٹوٹ گیا تو وہ بھارت کی فتح ہوگی جس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور صوبائی و لسانی تعصبات میں اضافہ اور آزاد کشمیر و پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا ہونے کے علاوہ سندھ طاس معاہدہ اور سی پیک کا منصوبہ خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اندریں حالات کشمیری مسلمانوں کے تحفظ، تحریک آزادیٔ کشمیر کا تسلسل موثر انداز سے بحال رکھنے اور خطہ کشمیر اور پاکستان کے عوام کے درمیان جذبہ اخوت ویگانگت پیدا کرنے کے لیے موثر اور مربوط کوششیں کرنا کشمیر اور پاکستان کے اصحاب فکر و اختیار کا قومی اور ملی فریضہ نیز وقت کی پکار ہے۔ ایسے میں کشمیری قوم کی بقاء و آزادی کے لیے مضبوط پاکستان کی اہمیت اور پاکستان کی معیشت و دفاع کے لیے کشمیر کی اہمیت کو دونوں خطوں کے عوام میں ذہن نشین کرنے کے ساتھ پاکستانی عوام کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ تحریک آزادیٔ کشمیر دراصل تحریک تکمیل پاکستان ہے واضح رہے کہ کشمیرکا المیہ پاکستان کا المیہ ہے۔