پاکستان کا امیج

625

خوراک کی ایسی قلت پڑی کہ کھیت، کھلیان اور جنگلات بھی خس و خاشاک کا ڈھیر بن گئے۔ ہر سمت بھوک رقصاں تھی۔ اس افتاد سے نمٹنے کے لیے جنگل کے بادشاہ نے وطن کے عزیز کے جمہوری بادشاہ کی طرح ایک مشکل فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی رعایا سے خطاب کیا اور باور کرانے کی کوشش کی بھوکوں مرنے سے بہتر ہے کہ اتنا کھاؤ کہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے۔ گھاس کھانے والوں سے کہا کہ تھوڑی سی گھاس کھا کر سارا دن اس کی جگالی کرتے رہو کہ یہی قومی مفاد کا تقاضا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ ہنسی خوشی قربانی دو۔ سبھی شیر کی ہاں میں ہاں ملانے لگے مگر ایک بکری منمنائی اور التجا کی کہ جنگل کے بادشاہ ہم تو قربانی دیتے رہتے ہیں کبھی بڑوں کو بھی قربانی دینا چاہیے۔ یہی قرین انصاف ہے۔ جنگل کے بادشاہ نے کہا کہ تم جانتی ہو کہ قربانی کے لیے حلال ہونا لازمی ہوتا ہے اور ہمارا شمار حلال میں نہیں ہوتا سو قربانی تو تمہیں ہی دینا ہوگی۔ جب بھی ہمیں یہ حکایت یاد آتی ہے وطن عزیز کا حکمران طبقہ آنکھوں کے سامنے معزول وزیراعظم عمران خان کے مبینہ خط کی طرح لہرانے لگتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ کی طرح جمہوری بادشاہ بھی رعایا سے قربانی کے طلب گار ہوتے ہیں مگر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قربانی دینا حرام سمجھتے ہیں۔ جو بھی برسر اقتدار آتا ہے لکیر کا فقیر ہی بنا رہتا ہے۔
ان دنوں پاکستان کی ری ایمیجنگ کی بات ہو رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کا امیج کیا ہے؟ یہی ناں کہ جو بھی حکمرانی کے جھولے میں بیٹھتا ہے پینگیں لینے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتا۔ عمران خان بھی پینگیں لیتے رہے۔ اب یہی کام وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی حکومت بھی کر رہی ہے۔ ملک کی ترقی اور قوم
کی خوشحالی کے نام پر بیرونی ممالک سے قرض لیا جاتا ہے۔ امداد کی مد میں ملنے والی رقوم سے اثاثے بنائے جاتے ہیں۔ اپنے خاندان اور منظور نظر لوگوں پر نوازشوں کی بارش کی جاتی ہے۔ عمران خان کے ہم نوا ان کی ایمانداری کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے حالانکہ وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ عمران خان نے اپنے عزیز و اقارب کو نوازنے کے لیے قومی خزانے کا منہ کھول دیا تھا۔ شنید ہے کہ موصوف نے ایک عزیزہ کو نوازنے کے لیے تنخواہ کے نام پر لاکھوں روپے دیے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ موصوفہ بیرون ملک قیام پزیر تھیں۔ تنخواہ لینے کے لیے بھی پاکستان نہیں آتی تھیں۔ کیونکہ تنخواہ ان کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے کی ذمے داری عمران خان کی حکومت نے سنبھالی ہوئی تھی۔ یہ کیسا تماشا کہ جو حکومت نہ سنبھال سکا گھوسٹ ملازمین کو کیسے سنبھالتا رہا۔
عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا جو آنے والی حکومت کے لیے عذاب بن گیا ہے اور اب جو معاہدہ میاں شہباز کریں گے وہ بھی آنے والی حکومت کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ ایسی ہڈی جو گلے سے نیچے اتاری جا سکتی ہے اور نہ اگلی جا سکتی ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا آئی ایم ایف ہڈی ڈالے گا یا پھر ان کی رال ٹپکاتا رہے گا؟ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف اور اور اور کی پالیسی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کا نیا مطالبہ یہ ہے کہ جو معاہدہ کیا جا رہا ہے شنید ہے کہ وہ یہ ضمانت چاہتا ہے کہ آنے والی حکومت بھی اس پر عمل درآمد کرے۔ برسر اقتدار آنے والی حکومت اس سے رو گردانی کی مرتکب نہ ہو۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف قرض دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔ کیونکہ اسے اس حقیقت کا ادراک ہے کہ پاکستان کی ہر حکومت قرض لینے سے دلچسپی رکھتی ہے۔ واپسی کی ذمے داری آنے والی حکومت پر ڈال دیتی ہے۔ اور پھر قرض کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لیا جاتا ہے۔ یوں عوام کو سود در سود کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
امیر جماعت محترم سراج الحق نے درست کہا ہے کہ جب تک سودی نظام برقرار رہے گا قوم افلاس کی دلدل میں دھنسی رہے گی۔ ان کا یہ کہنا بھی حق بجانب ہے کہ جب تک کرپشن کی ٹرائیکا بر سر اقتدار رہے گی عورتوں کے سر اور بچوں کے پاؤں ننگے رہیں گے، ملک کی معیشت اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتی جب تک سودی نظام سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی جاتی۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم رہے گی۔ ایسی بادشاہت جو آمریت سے بھی بدتر اور اذیت ناک ہے۔ بادشاہت میں ایک خاندان کے ناز نکھرے اٹھانا پڑتے ہیں اور جمہوریت میں ہزاروں خاندانوں کی کفالت کی ذمے داری عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اور یہ سیاسی جونکیں عوام کا خون چوستی رہتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ان سیاسی پیر تسمہ پا سے نجات حاصل کی جائے۔ ورنہ عالمی سود خور اپنے مطالبات منواتے رہیں گے۔
یہ کیسی شرم ناک حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے یہ شرط بھی عائد کی ہے کہ عشرت گہے خسرو کے مکینوں سے مکان ہی نہیں پر آسائش گاڑیاں، مفت پٹرل، ڈائیور اور اہل خانہ کی تمام سہولتیں ختم کی جائیں۔ حالانکہ یہ کام بہت پہلے کرنا چاہیے تھا۔ مشرقی پاکستان نے بنگلادیش کے قیام کے بعد یہ تمام سہولتیں اور مراعات ختم کر دی تھیں جس کے نتیجے میں اس کی معیشت قابل رشک ہو چکی ہے جب کہ ہمارے تمام وسائل حکمران طبقے کے لیے وقف ہیں۔ ملازمت ختم ہونے کے بعد بھی قومی خزانے پر بوجھ بنے رہتے ہیں۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ عشرت گہے خسرو کے مکین سبکدوش ہونے کے بعد بھی پنشن کی مد میں لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔ بجلی، پٹرول اور دیگر سہولتوں کی مد میں ہزاروں روپے وصول کرتے ہیں۔ یہ وہ مراعات ہیں جنہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ کر دیا ہے۔ اس بے رحم مخلوق نے قومی خزانے کو مال مفت بنا دیا ہے۔