حق ادا نہ ہوا

576

کبھی سوچا ہے آپ نے کہ آپ کھانا کیوں کھاتے ہیں؟ پانی کیوں پیتے ہیں چائے کافی، لسی، قہوہ اور دیگر اشیاء کیوں استعمال کرتے ہیں؟
کیا کہا؟
جینے کے لیے؟
جینے کے لیے تو ابن آدم کو اک لقمہ ہی کافی ہے پھر یہ مہینہ بھر کا راشن اس راشن میں اگر دودھ، گوشت مکھن، انڈے نہ بھی ہوں پھر بھی آٹا، چینی، تیل، پتی، دالیں، چاول، مصالحے، بسکٹ، پاپڑ وغیرہ وغیرہ جیسے اگر یہ سب کچھ نہ ہوا تو خدانخواستہ جینے کے آثار ہی مفقود ہو جائیں گے اگر ایسا ہوتا تو 8 اکتوبر 2005 کے پاکستانی زلزلے اور ابھی پچھلے دنوں ترکیہ کے زلزلے میں زندہ بچ جانے والے افراد تین دن سے لیکر ایک ماہ کی مدت تک بھی باہر نکالے گئے تو بغیر کچھ کھائے پیے زندہ رہے یہ معجزات اس دور دجل میں سامنے آتے ہی اس لیے ہیں کہ ہم جان سکیں کہ یہ مہینے بھر کے جمع کی ہوئی گروسری ہماری زندگی، صحت، خوشیوں اور سکون کی ضامن نہیں ہے جس کے نہ مل سکنے پر یا آمد رمضان المبارک کے دوران ان اشیاء کی قلت اور قیمت پر گھل گھل کر افسوس کیا جائے کہ ہائے گراں فروشوں نے مہنگائی کر دی اب رمضان میں کیا کھائیں گے؟ ہر شخص پریشان یہ سوال بہت کم ہے کہ رمضان آ رہا ہے اپنے اعمال سے کیا کمائیں گے؟ فکر ہے تو صرف یہی فروٹ چاٹ کیسے بنے گی فروٹ مہنگا ہے شربت مہنگا، آٹا مہنگا، چینی مہنگی، پتی مہنگی۔
ارے کوئی جا کر اس قوم کو بتا دے کہ اس قدر گرانی کے زمانے میں جہاں موت کے سوا ہر شے مہنگی ہے وہیں اللہ پاک کے اس قدرتی نظام کے تحت نیکیوں کا سستا بازار لگنے والا ہے جہاں کروڑوں روپے کی ایک نیکی فقط اک سحری اور اک دن کی افطاری کی قیمت پر موجود ہے یہ وہی سحری اور افطاری ہے جس کے لیے راشن کی وصولی کے لیے لمبی لمبی لائن لگا لگا کر لوگ ادھ موئے ہو ہو جاتے ہیں اور کمانے والے ایک کھجور اور ایک گلاس پانی پلا کر بھی کما لے جاتے ہیں فرق صرف ترجیحات کے بدلنے کا ہے آواری ہوٹل، میریٹ، پی سی ہوٹل میں بھی سحری اور افطاری کی میز سجتی ہیں اور سیلانی، چھیپا، الخدمت، جمعیت دہلی کے تحت بھی دسترخوان سجتے ہیں اور ان سب کے مقابل میرے نبی کریمؐ کی سنت کا احیاء کرنے والے اس پیروکار کے اجر و ثواب کا اندازہ کیجیے کہ جو اس ساری تگ و دو سے دور پرے طائف کی گلیوں اور شعب ابی طالب کی گھاٹی کی سنت کو زندہ کرے گا اک کھجور سے روزہ رکھ کر دوسری کھجور سے کھولے گا وہ دنیا کی فانی لذتوں کے پیچھے ہانپنے کے بجائے آخرت کی دائمی اور ابدی نعمتوں کے حصول کو ترجیح دے گا مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کون ہوگا وہ بھی آج کی دنیا میں؟ کیا وہ فرد ’’میں‘‘ ہوسکتی ہوں؟ یا محض نصیحت کرنا ہی آسان ہے بس۔
مجھ پر بھی ادراک کے یہ لمحے تب نازل ہوئے جب پچھلے پورے ہفتے کے دوران خرابی طبع کے باعث ناشتہ،کھانا سب ترک ہو چکا تھا صبح چائے کی پیالی کے سوا پورا دن فقط تین کھجور فی یوم کے حساب سے بے دھیانی میں ہفتہ گزار دیا اب جو گزرے ہفتے کے کھانے اور مصروفیات کا جائزہ لیا تو پورے دن میں صرف تین کھجور کے باوجود معمول سے زیادہ محنت صبح یونیورسٹی میں تدریسی فرائض کی انجام دہی سہ پہر میں تحریکی اور شام سے رات تک گھریلو امور کی انجام دہی میں کہیں کم خوراکی آڑے نہ آئی باوجود خرابی طبع چاق و چوبند ہونے کا احساس حاوی رہا تب سمجھ میں آیا کہ عوام ’’روزہ‘‘ سوار کرکے بہت کچھ اضافی کر جاتے ہیں روزہ کو واقعتا اور حقیقتاً اک معمول سمجھ کر رکھنا شروع کر دیجیے اور رمضان المبارک کے تیس روزوں کے علاوہ پیر، جمعرات، ایام بیض کے روزے معمول سمجھ کر رکھیں گے تو کبھی رمضان المبارک کی آمد پر کچھ الگ سے کچھ خاص ’’راشن بندی‘‘ کے انتظامات کرنے کے بجائے کچھ خاص اعمال بندی کی طرف رغبت ہوسکے گی بات ساری ترجیحات کی ہے جس دن ہم نے ترجیحات بدل دیں ناں لوگ ہمیں لوٹنا اور بیوقوف بنانا چھوڑ دیں گے پھر رمضان المبارک کے دوران بھی پھلوں کی قیمتوں میں اضافے نہیں ہوا کریں گے ہر روز روز عید اور ہر شب شب برات ہوگی خوشیوں کی سوغات ہوگی امن و خوشحالی کی برسات ہوگی نہ کسی کو شہ نہ کسی کی مات ہوگی۔
بقول غالب ؎
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا