کراچی اب آگے بڑھے گا

452

پاکستان میں نوجوان ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ پاکستان کے نوجوان اور ان کی صلاحیتیں پاکستان کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ ایک ایسا اثاثہ جس کو اگر صحیح استعمال کیا جائے تو منظر بدل سکتا ہے اور بدل رہا ہے۔ کون بدل رہا ہے اور کیسے بدل رہا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے آپ کو کراچی کی سیاست کو دیکھنا ہوگا۔ یہی کراچی تھا جہاں کچھ نوجوان لنگڑے، لولے اور کانے کے خطاب حاصل کرتے اور بوریوں کو بند کرنے اور بھرنے کی فکر کرتے۔ کچھ نوجوان بوریوں میں بھرے جاتے کچھ شہروں کو چھوڑ کر کہیں انڈر گرائونڈ ہونے کی فکر کرتے۔ خدا کا شکر کہ وہ دور گزرا۔ اگرچہ جس مشکل اور تکلیف سے گزرا وہ کراچی کے عوام ہی جانتے ہیں۔ بہرحال گزر گیا اور نوجوانوں نے سوچ سمجھ کر اپنا راستہ بدلا۔ حافظ نعیم الرحمن نوجوانوں کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔ ایسے رہنما کہ جو نوجوانوں کے دل کی آواز بن گئے ہیں۔ جو ہر شعبے میں کراچی کے نوجوان کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو ساتھ لے کر مسائل کے حل کی بات ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں حل بھی کرتے ہیں۔ کورونا ہو، کراچی کی تباہ کن بارشیں ہوں جہاں عوام محصور ہوگئے تھے، گھروں میں گلیوں محلوں میں پانی دریا کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا تو یہ حافظ نعیم الرحمن تھے جو نوجوانوں کو لے کر الخدمت کے ساتھیوں کے ساتھ گلی گلی محلے محلے مسائل حل کررہے تھے۔ پانی میں بھیگتے ہوئے برستی بارش میں کراچی کی سڑکوں پر موجود تھے۔ پھر ملک میں سیلاب آیا تو الخدمت کے کارکن جانوں پر کھیل کر ہم وطنوں کو بچانے میں مصروف تھے اور نعیم الرحمن اپنے نوجوان ساتھیوں کے ساتھ ان کے شانہ بشانہ موجود تھے۔
جماعت اسلامی کے تحت ’’بنوقابل‘‘ پروگرام کے تحت انہوں نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے آئی ٹی کی مہارت اور تربیت کے مواقعے فراہم کرنے کے لیے ملک کا سب سے بڑا انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیا جس میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی۔ اب اس کے نتائج اور انٹرویوز کے بعد کلاسوں کا انعقاد شروع ہوچکا ہے۔ جس کے پہلے فیز میں 10 ہزار لڑکے لڑکیاں آئی ٹی کے مفت کورس کر رہے ہیں۔ اس کے لیے شہر بھر میں بیس کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں صبح سے رات تک مختلف اوقات میں کلاسوں کا انعقاد ہورہا ہے۔ اس کے لیے پروفیشنلز آئی ٹی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ’’بنو قابل‘‘ پروگرام کراچی کے لیے ایک بہت بڑا تاریخی پروگرام ہے جس سے شہر کراچی کے نوجوانوں کی زندگی میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ اس سے نوجوان کو حوصلہ ملا ہے اور آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جذبہ بیدار ہوا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن جس خلوص و نیک نیتی کے ساتھ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے میدان میں کھڑے ہیں دور دور تک اس معیار اور ویژن کا کوئی لیڈر موجود نہیں، وہی غیرجمہوری خاندانی سیاست جس کا خمیر گھٹی میں دیا گیا ہے۔ بلاول اور مریم انہی حکمران والدین کے تربیت یافتہ انہیں کیا معلوم کے ایک نوجوان یونیورسٹی سے فارغ ہونے اور ڈگری حاصل کرنے کے بعد کتنے دھکے کھاتا ہے، جوتیاں چٹخاتا ہے، جانگسل مراحل سے گزرتا ہے تو دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ کیا عمران خان، شہباز شریف اور زرداری سیاسی رہنما ہیں؟ جو اشرافیہ ٹیکنوکریٹس کی انجینئرڈ دھاندلی کے پس پردہ معاہدوں کے منتظروں کی لائن میں آگے بڑھنے کے لیے ایک دوسرے کو دھکے مار رہے ہیں کہ کسی طرح اگلی حکمرانی کا ٹوکن ان کو مل جائے۔ اس دھکم پیل اور باری کے منتظروں کے ہجوم میں نوجوانوں پر کیا گزر رہی ہے؟ کوئی ہے جو اس پر سوچ بچار کرے۔
یہ نوجوان جو کسی بھی ملک کے لیے انتہائی اہم حیثیت رکھتے ہیں کہ ترقی میں اُن کا کردار جادوئی اثر رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں آبادی کا 60 فی صد نوجوان ہیں۔ لیکن نام نہاد رہنمائوں کی نظر کرم سے نوجوان کے لیے مستقبل کا ویژن ہے نہ کوئی قومی پروگرام۔ جس کے باعث نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے یا کم معیار کا کام کرنے پر مجبور ہے۔ کراچی کے عوام جان گئے ہیں کہ حافظ نعیم الرحمن کراچی کے نوجوانوںکی صلاحیتوں کا استحصال نہیں ہونے دیں گے، وہ نوجوانوں کے دل کی آواز ہیں۔ سندھ پر عشروں سے قابض پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا قبضہ رکھنا چاہتی ہے، اسی لیے بلدیاتی الیکشن میں دھاندلی کرکے اپنا میئر لانے پر بضد ہے۔ حالاں کہ سندھ حکومت کے تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود کراچی نے جماعت اسلامی کے حق میں فیصلہ سنادیا ہے کہ اب کراچی حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں آگے بڑھے گا۔