کراچی پر پیپلز پارٹی کی قیامت تو آچکی

713

جماعت اسلامی کی انتھک جدوجہد کے بعد پیپلز پارٹی عدالتی احکامات پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ منعقد کرانے پر مجبور ہوئی تھی لیکن کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے تو فرار کا ہر ممکن راستہ اپنا کر دیکھ لیا انہیں مجبوراً انتخابات کا انعقاد تسلیم کرنا پڑا۔ پھر 15 جنوری کو جو الیکشن ہوا اس میں انتخابی ضابطوں کی دھجیاں اُرا دی گئیں۔ ریٹرننگ افسروں اور انتخابی عملے نے پارٹی کارکنوں سے بڑھ کر کارگزاری دکھائی، کوئی قانون، شرم حیا ان کے مانع نہ تھی اور انتہائی نااہلی کے ساتھ انتخابی دھاندلی کی تھی۔ اس میں بھی وہ اکثریت حاصل نہ کرپائے تو دھوکے سے دوبارہ گنتی کرکے تھیلے پھاڑ کر نئے بیلٹ ڈالے گئے۔ فارم 11 اور فارم 12 تو کاغذی بات رہ گئے۔ انتخابی نتائج کا من مانا اعلان کردیا گیا لیکن جماعت اسلامی پیچھے لگی رہی، عوام کے ووٹوں کا تحفظ بیلٹ بکس تک بھی گیا اور بعد میں بھی اس کی حفاظت کررہی ہے۔ یہ حکومت کراچی کی 11 یوسیز کا الیکشن نہیں کرانا چاہتی، اس نے 6 یوسز میں پہلے ہی دھوکے سے نتیجہ اپنے حق میں کرلیا تھا۔ جعلسازی پکڑی جانے لگی اور آر اوز برطرف ہونے لگے تو دبائو میں آگئے اور الیکشن کمیشن نے بالآخر ضمنی انتخابی شیڈول جاری کردیا۔ لیکن یہ شیڈول بھی الیکشن کمیشن نے رضا مندی اور قانون کی بالادستی کی وجہ سے نہیں جاری کیا بلکہ جماعت اسلامی ایک دن کے لیے بھی چین سے نہ بیٹھی۔ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے بھی دیے، مجبوراً شیڈول جاری کردیا گیا، اب ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی فرار کی راہ تلاش کررہی ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے حکومت سندھ سے کہا ہے کہ فوری طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کرے اور انتخابی شیڈول تبدیل کرائے۔ بلاول زرداری نے انتخابی شیڈول کو مسترد کرتے ہوئے عجیب سوال اُٹھایا ہے کہ اگر کراچی و حیدر آباد میں جیالا میئر آگیا تو کیا قیامت آجائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے حق پر ڈاکا ہے۔ حالاں کہ کراچی کے عوام کے ووٹوں پر ڈاکا تو الیکشن کمیشن کے سامنے بھی ثابت ہوگیا ہے اور دھاندلی کے بادشاہوں سے بھی غلطی ہوگئی کہ انہوں نے صرف یوسی چیئرمین کی تعداد بڑھانے کے لیے ان ہی کے ووٹوں میں ردوبدل کیا۔ جماعت اسلامی نے پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تقریباً ساڑھے پانچ درجن کونسلرز یا وارڈز زیادہ جیتے ہیں۔ ایک یوسی میں چیئرمین، وائس چیئرمین کے ساتھ چار کونسلر ہوتے ہیں۔ یہ کس قسم کے لوگ تھے کہ پوری یوسی میں جماعت اسلامی کے کونسلرز کو ووٹ دیے اور چیئرمین وائس چیئرمین پیپلز پارٹی کا جتوادیا۔ اس دھاندلی سے صاف واضح ہوگیا کہ قیامت تو آچکی۔ بلاول صاحب کراچی پر پہلی قیامت اس وقت آئی جب پیپلز پارٹی اور متحدہ کا اتحاد ہوا اور دونوں نے مل کر اس شہر کو تباہ کیا۔ دوسری قیامت اس وقت آئی جب چند ٹکڑوں کے عوض متحدہ نے کراچی کے اہم اداروں پر پیپلز پارٹی کے کنٹرول پر آنکھیں بند کرنا شروع کردیں۔ خصوصاً سابق میئر کے دور میں صرف میئر شپ لے کر متحدہ والے موجیں کرتے اور اختیارات کا رونا روتے رہے، کیونکہ اس کا نعرہ تھا میئر تو اپنا ہونا چاہیے جب کہ اپنے ہاتھوں سے یہ اختیارات ایک ایک کرکے حکومت سندھ کو دیتے رہے۔ کراچی پر تیسری قیامت یہ آئی کہ پیپلز پارٹی نے اس شہر کے تمام اداروں میں اپنے جیالوں کو پیسوں کے بل پر ملازمتوں سے نوازنا شروع کیا اور اس کے بارے میں اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ اب کراچی میں موجود صوبائی اور شہری بلدیاتی اداروں میں مقامی لوگ خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ سارے پیپلز پارتی کے کوٹے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسپتال، تعلیمی ادارے، بلدیاتی ادارے تھانے، عدلیہ سب تباہ ہوچکے اور تمام محکمے قبضے میں کرنے کے باوجود ڈھائی سال سے زیادہ انتخابات کو ٹالتے رہے۔ کراچی کی سڑکیں، پارکس، گٹر لائنیں، پانی کا نظام، کوئی چیز سلامت نہیں رہی۔ بلاول صاحب کراچی پر پیپلز پارٹی کی قیامت تو آچکی ہے، اب جماعت اسلامی کی جدوجہد کے نتیجے میں قیامت ٹلنے کا وقت آیا تو یہ اقتدار اور اختیارات سے چمٹ گئے ہیں۔ عوام نے ان کے خلاف ووٹ دے دیا ہے، ووٹوں کی تعداد دیکھ کر ہی شرمندہ ہوجانا چاہیے تھا، لیکن وہ پیپلز پارٹی ہی کیا جو شرمندہ ہوجائے۔ اس کے بانی نے اقتدار کی خاطر ملک ٹکڑے ہونا قبول کیا۔ اقتدار کی خاطر انہوں نے ہر ایک سے اتحاد کیا۔ آمروں سے سودے بازی کی۔ اقتدار کی خاطر امریکا میں پاکستان کے خلاف مہم چلائی۔ کشمیر کے خلاف پاکستان میں مہم چلائی، اور پھر بھی عوامی جمہوری پارٹی بنی ہوئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اہل کراچی پیپلز پارٹی کے اتنے مظالم کے باوجود میئر اس کا دیکھنا چاہتے ہیں اور یوسی میں چاروں کونسلرز کو ملنے والے ووٹ ہی پیپلز پارٹی کے لیے قیامت نامے سے کم نہیں۔ جمہوریت کی دعویدار پارٹی کو بار بار الیکشن سے بھاگنے کی کوشش ہرگز زیب نہیں دیتی۔ اگر الیکشن کمیشن نے رمضان میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے تو کون سی قیامت آجائے گی۔ انہیں رمضان کا احترام کب سے سوجھنے لگا۔ پھر بھی اگر شکوہ ہے تو انتخابات عیدالفطر کے اگلے دن تک لے جائیں اور 30 اپریل ہی کو میئر کا انتخاب کرایا جائے۔ دنیا میں ایسی جمہوری پارٹی کہیں نہیں ملے گی جو مسلسل جمہوریت ہی سے فرار ہورہی ہو۔