بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

631

مکالمہ ہماری ضرورت ہے، ہم اظہارِ آزادی کے نعرے لگاتے ہیں، لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ ہم آج جس اظہارِ آزادی پر نازاں ہیں، وہ ہماری آزادی نہیں بلکہ ہماری آزادی کو کنٹرول کرتا ہے۔ ہماری آزادی کو ان شرائط و ضوابط نے کنٹرول کر رکھا ہے، جو سرمایہ داروں نے ڈیزائن کی ہیں، آج کا انسان سوچتا بھی وہ ہے، جو سوشل میڈیا چاہتا ہے۔ دنیا یک رخی ہوگئی ہے، آج کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کے خیالات کو کس طرح قابو میں کیا جائے، آج کی دنیا ارادے کو قابو کرنے کی ہے، جو لوگ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ انسان کی تمنا کو بدل دے، انسان کو ان چیزوں کی طرف راغب کرے، جو وہ پیدا کر رہے ہیں، جو وہ فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ آج ابلاغ بہتر ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ اظہار کے مواقع زیادہ ہیں، دنیا کنٹرولڈ ہوگئی ہے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کا اظہار حاضر کے علوم اور مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مجھے یہ سب کچھ پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب سوری سے بزم مکالمہ کی نشست میں سننے کا موقع ملا۔
اب سے ایک سال قبل طارق جمیل شیخ نے ’’بزم مکالمہ‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ مارچ 2022 میں اس بزم کا آغاز بھی پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب سوری کے لیکچر ’’لبرم ازم کے تصور آزادی‘‘ سے ہوا تھا۔ بعد میں ہر ماہ ایک لیکچر کی روایت برقرار رہی، جس میں خرم علی شفیق، جسٹس وجیہ الدین احمد، ڈاکٹر عبدالہادی شاہد، خواجہ رضی الدین حیدر، فراست رضوی، پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر صابر حسین، پروفیسر ڈاکٹر مسعود محمود، ڈاکٹر ریاض الدین، محمود شام نے مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا اور سامعین سے سوال جواب کی صورت میں مکالمہ کیا۔ بزم مکالمہ کوئی تنظیم نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سوچ اور نظریہ کا نام ہے، یہ ایک تحریک ہے، جس کا مقصد معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے ایک جگہ جمع کرکے ایک موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرنے کا موقع دینا ہے۔ شیخ طارق جمیل کو یہ وصف اپنے والد شیخ جمیل الرحمن مرحوم سے ملا ہے، جو ڈاکٹر اسرار احمد کے رسالے میثاق کے ایڈیٹر رہے، اور ڈاکٹر اسرار کی کئی کتابیں انہوں نے مرتب کیں۔
طارق جمیل شیخ کراچی کی علمی ادبی شعری تقریبات میں ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ’’بزم شعر سخن‘‘ کے بھی بانی ہیں، جو 2017 سے ہرسال ایک شاندار محفل مشاعرہ منعقد کرتے ہیں، جس میں نامی گرامی شعرا شرکت کرتے ہیں۔ طارق جمیل کو احباب بھی ایسے ملے ہیں، جو پرورش لوح و قلم کے راستے کے مسافر ہیں۔ ان میں فراست رضوی، افتخار ملتانی، خالد میر، تاجدار عادل، ظفر اقبال، شفیق اللہ اسماعیل، ارشاد آفاقی، سید ہانی رضوی جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر احباب خود شعر و ادب میں نامور ہیں۔ بزم مکالمہ کی روح یہ ہے کہ ’’مخالفت نہیں بلکہ اختلاف کیجیے‘‘ ایک سال کے عرصے میں جو پروگرام ہوئے، ان کے موضوعات بھی بہت اہم تھے، پاکستان میں سیاسی نظام کی ناکامی، پاکستان معاشی استحکام یا دیوالیہ، ذہنی صحت و پاکستانی معاشرہ، لیاقت علی خان سیاست اور شہادت، سید ابوالاعلی مودودی بحیثیت نثر نگار، قائد اعظم کا تصور قومیت، پاکستان کے معاشی حالات اور سدھار کے امکانات، یہ سارے موضوعات اور ان پر ہونے والے سوال جواب ہمیں معاشرے میں مکالمے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
موجودہ سیاسی صورت حال میں بھی مکالمے کی اشد ضرورت ہے، تبدیلی اور قلاب طاقت کے مظاہروں سے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے نہیں آتے۔ عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کو جس طرح تماشا بنایا گیا ہے، اس سے یہ بھی اظہار ہوتا ہے کہ اصل مقصد عمران خان کو گرفتار کرنا اور انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا نہیں بلکہ انہیں اس سرکشی کی سزا دینا ہے، جو انہوں نے نادیدہ طاقت کے خلاف ڈکٹیشن قبول کرنے کے خلاف کر رکھی ہے۔ عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ یا کوئی اور ریاستی طاقت اسے اب پاکستان میں مزید تجربات کا کھیل بند کردینا چاہیے۔ عوام کی طاقت صحیح یا غلط اس وقت عمران خان کے سحر میں ڈوبی ہوئی ہے، اسے طاقت سے نہیں توڑا جاسکتا۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت جس انتخاب کے وعدے پر اقتدار میں آئے تھے۔ اسے پورا کریں، اور جیتنے والوں کو اقتدار سپرد کریں۔ ملک کو چلانے کا ٹھیکہ کسی کے پاس نہیں ہے، جو اپنے آپ کو اس ملک کا ٹھیکہ دار سمجھ کو اپنی من مانی کر رہے ہیں، انہیں بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ عزت اور وقار ان سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اب زبانیں کھل گئی ہیں، نفرت چہروں پر پھیل رہی ہے، اگر یہ صورت حال رہی تو ان کو گلی محلوں اور بستیوں میں بھی مشکلات کو سامنا کرنا پڑے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا جائے۔
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے